تحریر : پون سنگھ اروڑا ہر سال جنم دن پر جب مبارکباد کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور دوست احباب تحفے تحائف کے ساتھ ملنے آتے ہیں تو بھول جاتا ہے کہ آخری بار ہم کب اور کہاں ملے تھے کوئی گلے شکوے بھی ہوں تو خوشیوں کی نظر ہو جاتے ہیں مروت میں انسان یہ بھی نہیں چاہتا کہ ایسے اچھے دن پر کوئی دُکھی بات گفتگو کا حصہ بنے لیکن اگر غور کیا جائے توسچ یہ ہے کہ وہ ایک خاص دن حقیقت سے بہت پرے ہے ۔اس ایک شادی یا سالگرہ جیسے خاص دن پر ملنے ملانے والوں میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سال بھر نظرہی نہیں آتے نہ تو حال چال پوچھا جاتا ہے اور نہ ہی جدید روابط کا سلسلہ قائم رہتا ہے رشتے ناتے محض سوشل میڈیا کے پر لائک اور شیئر کی نظر ہو کہ رہ جاتے ہیں۔
بلکل ایسا ہی معاملہ اُن دنوں پر ہوتا ہے جب ہم خود کوئی دن منا رہے ہوں جیسے ورلڈ فوڈ ڈے پر کھانے پینے کی اشیاء کے بارے میں سیمینار منعقد کر لیتے ہیں لیکن پورا سال نہ تو خود حفظان صحت کے اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور نہ ہی کبھی کچھ خریدنے سے قبل پہلے یہ سوچتے ہیں کہ اس کی تیاری میں صفائی کا خیال رکھا ہو گا یا نہیں اسی طرح جب ہم وقت گزر جانے پر اپنوں کو بھی یاد نہیں رکھتے تو یہ کیسے ممکن ہے ہم گرد و نواح کی چیزوں کا خیال رکھ سکیں شاید یہ فطرت انسانی ہے جسکی وجہ سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر خصوصی وجوہات کی بنا پر دن منانے کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں تا کہ ہم کم ازکم اسے یاد رکھ سکیں اور ہمیں دیکھ کر دوسرے لوگوں میں بھی احساس پیدا ہو سکے لیکن نہیں احساسات کے حالات تو اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ سانحہ پشاور کی برسی والے دن کہ علاوہ شاید ہی ہمیں یاد رہا ہو کہ ظلم کی ایک درد بھری داستان خون کی سرخ سیاہی سے ہماری تاریخ کے زخمی اوراق پر لکھی جا چکی ہے۔
عین ممکن ہے کہ برسی والے دن بھی ہمیں یاد رہا ہو کہ دو سال قبل 16 دسمبر کے دن آرمی پبلک سکول میں کتنے ننھے پھول دہشتگردوں کے غلیظ ارادوں تلے مثل دیئے گئے اور نجانے کس دکھی دل نے یاد رکھا ہو کہ پشاور کے چرچ میں کتنا خون بہا کوئٹہ کے خودکش بمبار نے کتنی جانوں کا لقمہ نگلا بلکہ ان پچھلے دو سالوں میں پاکستان کی جانب گندی نظر سے دیکھنے والوں کی نگاہ کتنی بار اْٹھی اور ہم نے ہر بار کتنی جانوں کا نذرانہ دے کر خود کو قائم رکھا اگر ہمیں یاد نہیں تو یہ لمحہِ فکریہ ہے، اور مال کی فکر تو چھوڑ ہی دی جائے تو بہتر ہے کیوں کہ وہ تو ہم خود ہی ایک دوسرے سے بڑے فخر کے ساتھ لوٹ لیتے ہیں اور کرپشن کے خاتمے کے لئے کوشاں بھی ہو جاتے ہیں۔ یہ بلکل ایسے ہی ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ سڑک پر ٹائر جلا کر اور ٹریفک کا نظام درہم برہم کر کے کیا جائے یا پھر ینگ ڈاکٹر مریض کو آپریشن تھیٹرمیں لے جا کر علاج کرنے کی بجائے سڑک پر لیٹا کراپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں اور کئی بیمار مجبورا ٹیکس ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی جان کی قربانی بھی دے دیں ۔پڑھنے میں شاید عجیب لگے لیکن یہ ہمارے جان و مال کا حال ہے اور ہمارے ہاں یہ عام ہے بصورتِ دیگر اگر ہمیں کچھ یاد نہ رہے تو اخبارات کے ای صفحات اور فیس بُک کی وائیرل پوسٹس چیخ چیخ کر گواہی دینے کو تیار ہیں بس (ایک ایسا واقعہ جو آپکو حیران کر دے گا ) کے عنوان والی ایک پوسٹ کو کلک کرنے کی دیر ہے لیکن خیر ضرورت تو اس امر کی ہے کہ اپنی کمزوری کو ختم کیا جائے آئندہ کے لئے اقدامات کئے جائیں بچاؤ کو زندگی کا حصہ بنایا جائے خود کو اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ کیا جائے۔
اپنی مشترکہ سوچ کو مضبوط کیا جائے تا کہ دوبارہ کوئی سکول ایسی گھٹیا اور گھناؤنی حرکت کا شکار نہ بن سکے لیکن سوچنے کی بات ہے کہ صرف پشاور کا آرمی پبلک سکول یا صرف ایک سکول ہی کیوں، نقصان پہنچانے والے بتا کر حملہ کرتے ہیں کیا، وہ ہماری مرضی جاننے کے خواہشمند ہوتے ہیں کیا، وہ ہمارے ٹوٹ کے بکھر جانے کے درد کا احساس رکھتے ہوں گے کیا اور ایسے کئی سوالات کے جواب شاید نہ ہی ہے اور یہ کہنا غلط نہیں کہ وہ انسانیت سے کوسوں دور ہیں اب سوچنا یہ ہے کہ بحثیت انسان ہم نے کیا اقدامات کیے ، کیا سوچا اور کیا عمل کیا۔ رویوں میں تبدیلی کے اس سفر میں ہم نے کس حد تک اپنا فرض ادا کیا بلخصوص اپنے بچوں کو تنگ نظری اور انتہاپسندی کے ماحول میں امن لانے اور اپنانے کے لیے کچھ سیکھانے کی کوشش کی یا جیب خرچ دے کر اور بندوق والے کھلونا ہاتھوں میں تھما کر اپنی ذمہ داریاں سے بری الذمہ ہو گئے۔
Army Public School Attack
ذرا سوچنے کی بات ہے کہ گوگل بابا 16 دسمبر کے دن کو ہونے والے دنیا بھر کے واقعات کا چٹھہ تو نینو سیکنڈز میں ہمارے سامنے رکھ دے گا، سوگ والے والپیپر اور ڈسپلے تصاویر ہماری پبلک پروفائل کی زینت تو ضرور بڑھا دیں گی، ہم اپنے گہرے رنج کا اظہار میری طرح اپنی تحریروں میں توکر ہی لیں گے لیکن کسی اپنے کے چھِن جانے والا احساس، ظلم کا شکار ہونے والی بیچارگی کی شدت اورکچھ نہ کرسکنے کی لاچارگی کا کوئی ازالہ ہو سکے گا ؟ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے چھوٹے چھوٹے بچوں کے والدین اپنے معصوم بچوں کی یاد میںکیسے بلکتے ہوں گے کیا ان کے درد کو ہم سمجھ سکتے ہیں ہوسکتا ہے ہم میں سے کئی لوگوں کو اس بات کا بڑی شدت سے احساس ہو لیکن پھر بھی جس کے گھر کا فرد آنکھوں سے دور ہو جائے تکلیف اسی آنگن میںمحسوس کی جا سکتی ہے، اور اگر محسوس کیا جائے تو پاکستان کی دھرتی میں سوگ کی جو ایک لہر 16 دسمبر کو گزری اس نے یہ ثابت کر دیا کہ بے شک ہم اپنے چمن کی حفاظت کرنے تو تیار ہیں ہم ایک دوسرے کا احساس رکھتے ہیں اب ضرورت ہے تو اس جذبہ کو پروان چڑھانے کی اس مقصد کو آگے بڑھانے کی حکومت افواج و دیگر ادارے تو ہماری حفاظت کے لئے ہر دم کوشاں ہیں۔
دہشتگردی کی کمر توڑنے کے لئے بھرپور کوشش جاری ہے جس میں کافی حد تک شاید کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے ورنہ نا تو آج میں کچھ لکھ رہا ہوتا نہ ہی آپ پڑھ رہے ہوتے کیونکہ دشمن نے ہماری درسگاہ پر حملہ ہمیں تعلیم سے دور کرنے کے لئے ہی یہ تو کیا تھا۔ لیکن وہ اس بات سے آشنا نہ تھے کہ ہم کمزور نہیںاب تو ہم نے احد بھی کر لیا کہ ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے ۔ جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ ان رویوں میں تبدیلی کے لئے ہمیں بہت محنت کرنا ہوگی اور بے شک کسی کے بچے کو کچھ سیکھانے سے پہلے شروعات اپنے ہی گھر سے ہوگی اور اپنے ہی گھر میں اگر ہم خود ٹھیک نہ ہوئے تو کوئی ہماری کیا خاک سنے گا ، گھوم پھر کہ بات یہاں ہی آجاتی ہے کہ ڈرنے ، گھبرانے ، بھا گ جانے یا جان چھوڑوا لینے سے کچھ نہیں ہوگا ، کچھ ہو گا تو ڈٹ کے مقابلہ کرنے سے ، سینہ تان کے ڈھال بن کراور اپنی آنکھیں کھلی رکھ کر ہر وار کا سامنا کر نے سے کیوں کہ ہمیں خطرہ صرف گولی یا بارود سے نہیں اس کے جواب کے لئے تو ہماری افواج ہی کافی ہیں جبکہ ہمارے پاس تو ایسا بہت کچھ ہے جس پر دشمن کی آنکھ میلی ہو سکتی ہے ۔ جب دشمن ہمارے مستقبل کے ننھے معماروں سے ہی ڈر گیا تو یہ کہنا غلط تو نہیں کہ بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے ، بلکہ یوں کہیں کہ ڈرتا ہے۔
بے شک ہمارا بچہ نہیں ڈرتا کیوں کہ آج بھی خون سے لت پت ہونے والے اُس ڈیسک پر بیٹھا کوئی بچہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہا ہوگا اندازہ کریں کتنا مشکل ہو گا اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے دوست کو تڑپتے ہوئے جان کی قربانی دیتے دیکھنا اور پھر اس قربانی کو رائیگاں نہ جانے دینا ۔ در حقیقت یہ ہے قربانی کا رائیگاں نہ جانا جسے ہم ہر جگہ لکھتے اور پڑھتے ہیں جو ہمارے لئے ایک جملہ مگرکرنے والوں کے لئے زندگی بھر کا ذہنی دبائو ہے لیکن وہ امن کے پیکر اس عمل میں بخوبی مصروف ہیں بے شک امن صرف ایک دوسرے کو سمجھنے سے ہی ممکن ہے ۔ اور سوچنا یہ ہے کی امن کے ذر یعے ہمیں خود کو بچانے اور سنوارنے کی کتنی اشد ضرورت ہے۔