تحریر : محمد ارشد قریشی یوں تو پاکستان کو آزاد ہوئے 71 سال ہونے کو آئے ہیں پھر بھی وطن کے باسیوں کو کئی بنیادی سہولیات میسر نہیں۔ تعلیم، روزگار اور صحت انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہیں ۔ حکومتوں کا اولین فرض ہے کہ وہ اپنی عوام کو یہ بنیادی سہولیات فراہم کریں اور کئی ممالک میں یہ سہولیات حکومت کی جانب سے عوام کو میسر بھی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہ بنیادی سہولیات اگر کہیں برائے نام میسر بھی ہیں تو ان کو برا حال ہے۔ سرکاری اسکولوں، سرکاری شفا خانوں اور بیروز گاری کے معاملات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ خدا بھلا کرے ان لوگوں کا جو حکومت کی اس نالائقی پر خاموش تماشائی بننے کے بجائے میدانِ عمل میں اترے اور عوام کے دکھوں کا مداوا کیا ، یہی وجہ ہے کہ آج وطن عزیز میں کئی نجی ادارے عوام کو یہ سہولیات فراہم کررہے ہیں جہاں یہ ادارے تعلیم اور صحت کی سہولیات عوام کو فراہم کررہے ہیں وہیں ان اداروں کے قائم ہونے سے عوام کو روزگار کے مواقع بھی میسر آئے۔
کراچی جو منی پاکستان اور ملک کا معاشی حب کہلاتا ہے ، دو کروڑ سے زائد آبادی والے اس شہر میں بسنے والوں کو 70 سال گذرنے کے باوجود بھی حکومتی سطح پر ایمبولینس کی سہولت ہی میسر نہیں ۔ کراچی شہر میں بہت سے فلاحی ادارے شہریوں کو یہ سہولیات فراہم کررہے ہیں ان میں ہی سے ایک فلاحی ادارہ ہے امن فاؤنڈیشن جو کراچی شہر میں نہایت سرگرمی سے عوام کو طبی اور تربیتی سہولیات فراہم کررہا ہے۔ امن فاؤنڈیشن ان میں منفرد اس وجہ سے بھی ہے کہ کراچی شہر میں امن فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والی ایمبولینس دوسرے فلاحی اداروں کے تحت چلنے والے ایمبولینس سے مختلف ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک مطالعاتی وفد کے ہمراہ امن فاؤنڈیشن کے مرکز جانے کا اتفاق ہوا جہاں اس ادارے کے بارے میں سیر حاصل معلومات میسر آئیں ۔ جو قارئین کے گوش گزار کرنا چاہوں گا ۔ امن فاؤنڈیشن نے اپنے سفر کا آغاز سن 2007 ء میں امن گھر اور مستحقین کو کھانے کی فراہمی سے شروع کیا ، سن 2009ء میں امن ایمبولینس سروس کا آغاز کیا اس وقت ایمبولینس کی تعداد دس تھی جب کہ اس وقت ادارے کے پاس 80 ایمبولینس ہیں جن میں سے 60 ایمبولینس آن روڈ ہیں جس میں زندگی بچانے والی ادویات اور تمام جدید سامان موجود ہوتا ہے اور ان کی باقاعدگی سے اپ گریڈیشن اور دیکھ بھال کی جاتی ہے ۔ان ایمبولینس کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے درجے میں آنے والی ایمبولینس کو اے سی ایل ایس یعنی ایڈوانس کارڈیو لائف سپورٹ کہا جاتا ہے ایسی ایمبولینس میں ایک ڈاکٹر، ایک نرس اور ڈرائیور موجود ہوتے ہیں ، دوسرے درجے میں آنے والی ایمبولینس کو اے ایل ایس کہا جاتا ہے یعنی ایڈوانس لائف سپورٹ اس ایمبولینس میں نرس، معاون اور ڈرائیور موجود ہوتے ہیں اسی طرح تیسرے درجے میں آنی والی ایمبولینس کو بی ایل ایس یعنی بیسک لائف سپورٹ کہاجاتا ہے ایسی ایمبولینس میں نرس اور ڈرائیور موجود ہوتے ہیں ۔ جوں ہی مریض کی جانب سے ایمبولینس کے لیئے کال آتی ہے تو ادارے کا نمائیندہ مریض کی کیفیت کے بارے میں دریافت کرتا ہے اور اسی مناسبت سے ایمبولینس کو روانہ کردیا جاتا ہے ۔ پورے شہر کراچی میں ادارے کی ایمبولینس 90مقام پر ہر وقت تیار کھڑی رہتی ہیں ،کسی بھی مریض تک پہنچنے کے لیئے پورے کراچی شہر میں اوسط وقت 12 سے 18 منٹ کے درمیان ہوتاہے اس دوران جدید ٹیکنالوجی کا استمال کرتے ہوئے اس ایمبولینس کو مریض کے گھر پہنچنے تک اس کی نگرانی کی جاتی ہے ، ایمبولینس کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آنے یا ٹریفک جام ہونے کی صورت میں ادارے کی جانب سے قائم ریپڈ ریسپانس یونٹ کے کارکن جو موٹرسائیکل پر سوار ہوتے ہیں وہ مریض کو بنیادی طبی امداد دینے پہنچ جاتے ہیں اور اس وقت تک طبی امداد جاری رکھی جاتی ہے جب تک ایمبولنس مریض کے پاس نہ پہنچ جائے ، ریپڈ ریسپانس یونٹ کا عملہ ان علاقوں میں ہر وقت موجود ہوتا ہے جہاں اکثر ٹریفک جام کے مسائل درپیش رہتے ہیں ۔ اس وقت کراچی میں کسی بھی مجموعی ہنگامی صورت حال میں ادارے کے پاس 35 فیصد لوگوں کو طبی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ اسپتالوں میں منتقل کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ اپنے قیام سے اب تک ادارے کی ایمبولینس نو لاکھ پچپن ہزار سے زائد سروس فراہم کرچکی ہے ۔
امن فاؤنڈیشن کے تحت صرف ایمبولینس کے ذریعے ہی نہیں بلکہ کئی دوسرے شعبوں کے ذریعے بھی سماجی زمہ داریاں احسن طریقہ سے پوری کررہا ہے ۔ادارے کے تحت ٹیلی ہیلتھ کے نام سے ایک شعبہ نہایت فعال انداز سے کام کررہا ہے ، ادارے کے اس شعبہ کے بارے میں شائید لوگوں کو زیادہ آگاہی نہیں ہے ، ٹیلی ہیلتھ جس کا ہیلپ لائن نمبر 9123 ہے یہ مفت طبی مشورے کا شعبہ ہے جہاں کال کرنے والے کا فوری طور پر میڈیکل ہیلتھ کونسلر سے رابطہ ہوتا ہے جہاں کالر کو مفت طبی مشورے دئیے جاتے ہیں ٹیلی ہیلتھ کئیر اٹرائی ایج سسٹم کے زیر نگرانی فعال ہے جہاں کسی بھی اہم طبی معاملے کو ضرورت پڑنے پر میڈیکل کونسلر کے ذریعے سرٹیفائیڈ ڈاکٹر کو بھی ریفر کیا جاتا ہے ، پورے پاکستان سے 23 ہزار سرٹیفائیڈ ڈاکٹروں کا ڈیٹا اس شعبہ میں موجود ہے ان میں سے 800 ایسے ڈاکٹر وں کا ڈیٹا بھی موجود ہیں جن سے طبی معائینہ کرانے کا وقت بھی اسی شعبہ سے لیا جاسکتا ہے۔ اس شعبہ کی جانب سے نہایت قابل تعریف بات یہ ہے کہ اس ہیلپ لائن پر کال کرنے والے تمام مریضوں کا ڈیٹا محفوظ کرلیا جاتا ہے اور انہیں کال کرکے نہ صرف ان کی صحت کے حوالے سے دریافت کیا جاتا ہے بلکہ موسم کی تبدیلی کی وجہ سے انہیں بذریعہ ایس ایم ایس احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بارے میں آگاہی اور مشورے دیئے جاتے ہیں ۔
امن فاؤنڈیشن کے تحت قائم اربن ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ جو آئی ایس او سرٹیفائیڈ تربیتی مرکزہے جہاں امن ایمبولینس میں کام کرنے والے پیرا میڈیکل عملے کو تربیت دی جاتی ہے ، اس کے تربیتی پروگرام جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی ، ڈاؤ اور امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن سے منسلک ہے ۔ امن فاؤنڈیشن کے تحت امن ٹیک کے نام سے ایک شعبہ قائم ہے جہاں کراچی کے نوجوانوں پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے انہیں مختلف شعبوں میں مہارت فراہم کی جاتی ہے ۔ جس کے لیئے کم از کم تعلیمی قابلیت میٹرک اور کم از کم عمر 17 سال مقرر کی گئی ہے ۔ امن ٹیک 12 مختلف شعبہ جات میں نوجوانوں کو تربیت فراہم کررہا ہے جس میں آٹو موبائلز، میکینکل، الیکٹریکل اینڈ الیکٹرانکس ، ریفریجریشن اینڈ ائیرکنڈیشنگ، ویلڈنگ اینڈ پلمبرنگ ، آٹو باڈی ریپیرنگ ٹیکنیشن ، آٹو پینٹ ریپیرنگ ٹیکنیشن، خواتین کے لیئے سلائی کڑھائی سرِ فہرست ہیں جبکہ سوفٹ اسکل پروگرام کے تحت کئی کورس کرائے جاتے ہیں
اس شہرِ بدنصیب کو جہاں بہت سے مسائل کا سامنا ہے وہیں یہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کہ جہاں آبادی کے لحاظ سے اس شہر کو ایسی 230 جدید ایمبولینس کی ضرورت ہے وہاں 60 ایمبولینس دستیاب ہیں ۔ اگر حکومت خود ایسی سہولیات عوام کو فراہم نہیں کرسکتی تو کم از کم ایسی سہولت فراہم کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کرکے ان سہولیات کو مزید بہتر اور وسیع کرسکتی ہے اور بہت سی قیمتی جانوں کو بچایا جاسکتا ہے ۔ اکثر حادثوں یا بیماری میں دیکھا گیا ہے کہ مریض کو اسپتال لے جاتے ہوئے اس کی موت واقع ہوجاتی ہے کیوں کہ اسے ابتدائی طبی امداد نہیں مل پاتی۔ یہاں ضرورت چند انتہائی اہم اقدامات کی بھی ہے جن کے کرنے سے کئی انسانی زندگیا بچائی جاسکتی ہیں ۔ شہر میں ٹریفک جام روز کا معمول بن چکا ہے اور اس صورتحال میں ایمبولینس کا مریض کو اسپتال تک پہنچانا بہت دشوار ہوجاتا ہے ، افسوس اس شہر میں حکومتی سطح پر یا نجی سطح پر کوئی ائیر ایمبولینس موجود نہیں ، 90 کی دہائی میں ایدھی کی ائیر ایمبولینس سروس تھی لیکن نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر وہ بھی ختم ہوگئی ۔حکومت کو فوری طور پر اس شہر میں ائیر ایمبولینس کا آغاز کرنا ہوگا یا پھر اس کے لیئے نجی فلاحی اداروں کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔ حکومت کو فلاحی اداروں کے ساتھ مل کر اوبر یا کریم طرز کا ایک ایسا جدید سسٹم متعارف کرانا ہوگا تاکہ کوئی بھی ایسی ایمبولینس جو کسی ایسے مریض کو اسپتال منتقل کررہی ہو جس کی جان کو شدید خطرہ ہو تو اس نظام کے تحت شہر میں اس مریض کے علاقے سے جس اسپتال میں اسے منتقل کیا جانا ہے تمام راستے کو ہنگامی بنیاد پر ٹریفک کا عملہ کلئیر کراسکے یہ زیادہ مشکل کام نہیں کیوں کہ الحمداللہ ہماری دسترس میں ایسی ٹیکنالوجی ہیں کہ بیک وقت فلاحی ادارہ اور ٹریفک پولیس کا عملہ ایسی گذرنے والے ایمبولینس کی نگرانی کرسکتے ہیں اور اسے کلئیر راستہ فراہم کرسکتے ہیں ۔
اس شہر میں ایک جانب کئی اموات اور حادثات وی آئی پی مومنٹ کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں تو دوسری جانب ان کی آمد و رفت عوام کے لیئے بھی باعث اذیت بنتی ہے ، اکثر وی آئی پیز قائداعظم انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے روڈ کا سفر کرتے ہیں جس سے ٹریفک شدید جام ہوجاتا ہے ، کیا ہی بہتر ہو کہ تمام وی آئی پیز ائیرپورٹ سے کراچی شہر کا سفر بذریعہ ہیلی کاپٹر کریں حکومت سندھ کے پاس ہیلی کاپٹر موجود ہیں یا پھر صرف وی آئی پیز مومنٹ کے لیئے ائیرپورٹ پر ایک ہیلی کاپٹر مختص کیا جاسکتا ہے شہر کے کئی مقامات پر ہیلی پیڈ کی سہولیات پہلے ہی موجود ہیں ۔ ان اقدامات پر عمل کرکے جہاں شہریوں کو پریشانی سے بچایا جاسکتا ہے وہیں بہت سی قیمتی جانوں کو بھی بچا یا جاسکتا ہے۔ کسی بھی ملک کے لیئے یہ بات نہایت افسوس ناک اور قابل شرم ہے کہ ٹریفک جام ہونے کے باعث راستوں میں مریضوں کی ہلاکتیں ہوں یا ایمبولینس اور گاڑیوں میں بچوں کی ولادتیں ہوں۔