تحریر: سید توقیر زیدی لاڑکانہ میں رینجرز کی گاڑی پر 2 بم حملوں اور فائرنگ کے نتیجے میں ایک اہلکار شہید جبکہ 5 اہلکاروں سمیت 14 افراد زخمی ہوگئے۔ لاڑکانہ میں رینجرز موبائل جیسے ہی رینجرز ہیڈ کوارٹر سے معمول کی گشت پر نکل کر میرو خان چوک کے قریب پہنچی تو سائیکل میں نصب بم پھٹ گیا اس کے فوری بعد ایک اور دھماکہ ہو گیا۔ پولیس اور رینجرز نے علاقے کی ناکہ بندی کرکے سرچ آپریشن شروع کردیا جس میں 10 مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی۔ اس کے علاوہ وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے بھی آئی جی سندھ اور ڈی آئی جی لاڑکانہ سے رپورٹ طلب کر لی۔ ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے زخمی اہلکاروں کی ہسپتال میں عیادت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ رینجرز کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کے خلاف آخری حد تک جائیں گے نومنتخب وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے ڈی جی رینجرز کے ساتھ ملاقات میں انھیں یقین دلایا کہ سندھ پولیس لاڑکانہ میں رینجرز پر ہونے والے حملے کی تحقیقات کرے گی۔
رینجرز اہلکار پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری سندھو دیش ریوو لوشنری آرمی نے قبول کی ہے۔ کراچی میں دہشتگردی، لاقانونیت اور جرائم کے خاتمے کیلئے اپریشن سپریم کورٹ کی ہدایت پر صوبہ سندھ کے تمام سٹیک ہولڈرز تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی مشاورت سے شروع کیا گیا۔ مرکزی حکومت کے کراچی میں امن کی بحالی کیلئے شروع کئے گئے اپریشن کا وزیر اعلیٰ سندھ کو کیپٹن مقرر کیا گیا۔ رینجرز کو اس اپریشن میں ہر اول دستہ کی حیثیت دی گئی اور پولیس کو اس کا معاون بنایا گیا۔ مرکزی حکومت کی نگرانی اور رینجرز کی خواہش پر اسے ملنے والے اختیارات کے بعد اپریشن کے مثبت نتائج سامنے آنے لگے۔ سپریم کورٹ نے کراچی میں سیاسی جماعتوں کے جنگجو ونگز کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے خاتمے کی ہدایت کی تھی مگر کسی پارٹی نے بھی اس ہدایت کو اہمیت نہ دی۔ رینجرز نے ایسے ونگز کا تعاقب کیا تو متحدہ نے اپریشن کے خلاف واویلا شروع کر دیا جبکہ پیپلز پارٹی نے متحدہ کے اندر سے صفائی پر اطمینان کا اظہار مگر جب پیپلز پارٹی کے اندر پائے جانے والے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی شروع ہوئی تو وہ نہ صرف رینجرز کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی بلکہ فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں بھی دینے لگی۔ اس وقت تک رینجرز اور پولیس مل کر کراچی سے ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوائ برائے تاوان کی وارداتوں پر کافی حد تک قابو پا چکی ہیں۔
پیپلز پارٹی نے اپنے اندر موجود جرائم پیشہ عناصر کو تحفظ دینے کیلئے رینجرز کے خلاف پولیس کو لا کھڑا کیا جس سے اپریشن متاثر ہونے کے خدشات سر اٹھانے لگے تاہم رینجرز کی فعالیت سے اپریشن پر زیادہ منفی اثر نہیں پڑا۔ اگر رینجرز اور پولیس کے درمیان پہلے کی طرح کوآرڈی نیشن جاری رہتا اور سندھ حکومت رینجرز اور مرکزی حکومت کو اپنا حریف نہ سمجھتی تو کراچی میں اپریشن کے نتائج مزید مثبت ہوتے۔ اب تک رینجرز جرائم پیشہ عناصر کے خاتمے کے بعد ان دہشتگردوں کے خلاف سرگرم ہوتی جو ضرب عضب کے بعد شمالی وزیرستان سے فرار ہو کر کراچی میں آن چھپے اور موقع ملنے پر بھیانک وارداتوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔
Sindh Government
ملک میں اندرونی اور بیرونی عناصر دہشتگردی میں ملوث ہیں۔ لاڑکانہ میں رینجرز کی گاڑی پر حملے کی ایک مقامی تنظیم نے ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس کے باوجود بیرونی ہاتھ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ رینجرز کے ساتھ بعض پارٹیوں اور تنظیموں کی مخالفت اور مخاصمت کا شاخسانہ بھی ہو سکتا ہے۔ کراچی میں رینجرز سیاسی و مذہبی پارٹیوں اور تنظیموں کے اندر موجود شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی ضرور کر رہی ہے مگر ابھی ان کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا۔ ان میں سے کئی کی طرف امجد صابری قتل، اویس شاہ کے اغوائ اور دو روز قبل پاک فوج کی گاڑی پر حملے کے حوالے سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ ان میں سے کسی کیلئے بھی لاڑکانہ میں رینجرز کو ٹارگٹ کرنا آسان سمجھ لیا گیا ہو گا۔ سندھ حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو نہ صرف ایسے واقعات کا اعادہ ہوتا رہے گا بلکہ کراچی میں اپریشن کے ثمرات سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
کراچی میں رینجرز کی کارکردگی سے مرکزی حکومت، غیر جانبدار سیاسی و مذہبی اور عوامی حلقے مطمئن ہیں، بے جا تحفظات اور اعتراضات اپریشن کی زد میں آئی پارٹیوں اور طبقوں کی طرف سے اٹھائے جا رہے ہیں۔ رینجرز نے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی کابینہ میں وزیر داخلہ سہیل انور سیال کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار کیا تو وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے ان کو نظر انداز کر دیا۔ گزشتہ دنوں اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والاکئی مقدمات میں ماخوذ اسد کھرل سندھ حکومت اور رینجرز کے درمیان وجہ تنازعہ بنا رہا۔ یہ سیال کے بھائی کا فرنٹ مین تھا۔ اسد کھرل کو لاڑکانہ رینجرز نے گرفتار کیا تو بڑی تعداد میں اس کے ساتھیوں نے رینجرز کا گھیرا? کر کے پولیس کی معاونت سے اسے رہا کرا لیا۔ اس غیر قانونی اقدام کی بھی سندھ حکومت نے سرپرستی کی۔ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے عجیب منطق پیش کی کہ رینجرز کو کراچی میں چار جرائم کے خلاف کام کا احتیار ہے اندرون سندھ وہ کوئی کارروائی نہیں کر سکتے۔
گویا کراچی میں رینجر دہشتگردوں اور جرائم پیشہ عناصر کا تعاقب کر رہی ہو، وہ کراچی سے باہر نکل جائیں تو رینجرز اپنی جیپوں کو بریکیں لگا لے اور ٹریگر سے انگلی اٹھا لے؟ نئے وزیر اعلیٰ نے انور سیال کو اپنی کابینہ میں شامل کر کے رینجرز کو کیا پیغام دیا ہے۔سندھ میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے قائم علی شاہ کی جگہ مراد علی شاہ کو وزیر اعلیٰ کا منصب سونپا ہے۔ کراچی کے حالات فوری اقدامات کے متقاضی ہیں مگر مراد علی شاہ پروٹوکول اور آوبھگت کے ماحول میں الجھے ہوئے ہیں۔ وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد روایتی طو رپر قائد اعظم کے مزار پر حاضری دے کر اپنے فرائض کی ادائیگی کا آغاز کیا لیکن ساتھ ہی اپنی پارٹی کے مرحومین کی قبروں پر حاضری بھی ناگزیر سمجھی اور زرداری صاحب سے ہدایات لینے دوبئی روانہ ہو گئے۔ استعفے سے قبل پارٹی قائد نے قائم علی شاہ کو بھی دوبئی طلب کیا تھا۔
Terrorists
جدید ذرائع ابلاغ کی موجودگی میں کار پروازان حکومت کو دوسرے ملک طلب کرنا وقت اور قومی وسائل کا اجاڑہ ہے۔ کسی کو فیس ٹو فیس سازش کیلئے بلایا جاتا ہے تعمیری کاموں کیلئے رازداری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ رینجرز کے اختیارات میں توسیع کو ہر مرتبہ متنازعہ بنا لیا جاتا ہے۔ اب بھی کئی ہفتوں سے توسیع نہیں کی جا رہی۔ ایسے حالات کا فائدہ کراچی میں امن دشمن اٹھاتے ہیں۔ ان دشمنوں کو یہ موقع سندھ حکومت دانستہ یا نادانستہ دیتی ہے۔ مرکزی حکومت رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے حق میں ہے، سندھ حکومت کو یہ توسیع دبا? میں آ کر دینا پڑے گی۔ یہ کام خوش اسلوبی سے ہو جائے تو کیا بہتر نہیں ہے۔
کراچی میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے سیاسی مفادات کیلئے پولیس اور رینجرز کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا، صوبائی اور مرکزی حکومت کی آپس میں ٹھن گئی۔ جس سے کراچی اپریشن متاثر ہو رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے ایسے اقدامات مرکزی حکومت کو ایسے آئینی اقدامات پر مجبور کر سکتے ہیں جن کو قانونی ہونے کے باوجود پسند نہیں کیا جاتا۔ سندھ حکومت نے اپنا رویہ نہ بدلا تو ایسے اقدامات پر عمل کرنا ناگزیر ہو سکتا ہے کیونکہ سیاسی اور عسکری قیادت کراچی میں کسی بھی قیمت پر امن کی بحالی کیلئے کاربند اور متفق ہے۔ کراچی میں امن کے قیام اور دہشتگردوں و جرائم پیشہ عناصر کے قلع قمع کیلئے پیپلز پارٹی سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر مرکزی حکومت اور کراچی میں اپریشن کرنیوالے اداروں کے شانہ بشانہ ہو کر چلے معروضی حالات، قومی مفادات اور کراچی کی روشنیوں کی بحالی کا یہی تقاضہ ہے۔