تحریر: پروفیسر رفعت مظہر 9 دسمبر کو اسلام آباد میں دو روزہ ”ہارٹ آف ایشیا کانفرنس” کا انعقاد ہوا جس میں 10 ملکوں کے وزرائے خارجہ اور 27 ملکوں کے نمائندے شامل ہوئے لیکن ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے کیمروں کی آنکھیں بھارتی وزیرِ خارجہ سشما سراج پر ہی جمی رہیں۔پاکستان پہنچنے پر سشما سراج نے استقبال کے لیے کھڑے مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے تو گویا الیکٹرانک میڈیا کی چاندی ہو گئی۔
ہر نیوز چینل باربار یہی منظر دکھاتے ہوئے بیک گراؤنڈ میں بھارتی فلموں کے حسبِ حال گیت سناتا رہا۔ ایک گانا ہمیں بھی یادرہ گیا جو غالباََ یوں تھا کہ”تیرے ہاتھ میں میرا ہاتھ ہو، ساری جنتیں میرے ساتھ ہوں۔ قصور اتنا الیکٹرانک میڈیا کا بھی نہیں کہ اِس کانفرنس میں سشماجی کے نازوانداز تھے ہی نرالے۔کبھی وہ سبزساڑھی پہن کر پیغامِ امن دیتی نظر آئیں توکبھی ہمارے مشیرِخارجہ کوسب کا ”سرتاج” قرار دیتے ہوئے۔ وزیرِخارجہ سرتاج عزیز نے سشماجی کے لیے دیدہ ودِل فرشِ راہ کرتے ہوئے اُن کااستقبال ”اے آمدنت ِ باعثِ آبادیٔ ما” کہہ کر کیا اور جاتے سمے ان کے ”سرتاج ”کایہ عالم کہ
صبحِ کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر ریل کی سیٹی بجی اور جی لہو سے بھر گیا
لیکن سُشماجی نے یہ کہہ کرکچھ تسلی ضروردے دی ”اگلے سال نریندرمودی پاکستان آئیںگے اورمیںبھی اُن کے ساتھ آؤں گی”۔ سُشماجی جب تک اسلام آباد میں رہیں، سبھی کی نگاہوں کا مرکز بنی رہیں۔سرتاج عزیز سے ملاقات کے بعدجو اعلامیہ جاری ہوا اُس میں جامع مذاکرات شروع کرنے کااعلان ہوا۔اِس اعلامیے میں دیگر 11 نکات کے علاوہ تنازعہ کشمیرکا ذکربھی ہے جس پربغلیں بجائی جارہی ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ سُشماجی یہاںبھی ہمارے ساتھ ”ہَتھ” کر گئیں کیونکہ اِس علامیے کی پہلی چار شقیں دہشت گردی اور ممبئی حملے کے متعلق ہیں۔
Sushma Siraj
ہمیں یقین کہ بھارت انہی شقوںکے گرد گول گول گھومتے ہوئے دیگر تنازعات پر مذاکرات کو ٹالتارہے گا۔ قارئین کویاد ہوگا کہ کچھ ہی عرصہ پہلے، اوفا کانفرنس کے بعد جب مذاکات کاڈول ڈالاگیا اور ہمارے مشیرِخارجہ بھارت جانے کو تیار ہوگئے توتب سُشماسراج نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے دوٹوک کہاکہ جس ایجنڈے میں کشمیر شامل ہواُس پربھارت بات نہیںکرے گا (حالانکہ اوفاکانفرنس میں تمام متنازع امورپر بات چیت کااعلامیہ جاری ہوچکاتھا) ۔تب سرتاج عزیزکو بھی غصّہ آگیا اوراُنہوں نے بھی بھارت جانے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہہ دیا
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں سبک سَر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جان بوجھ کربھارتی خطاب سے پہلے پاکستانی وزیرِاعظم کاخطاب رکھاگیا تاکہ بھارت کو جواب دینے میں آسانی ہو۔نریندرمودی توخطاب سے پہلے ہی راہِ فرار اختیارکر گئے اورقرعہ فال نکلا اُن کی ”چیلی” سُشماسراج کے نام ،جس نے پاکستان کے خلاف ”رَج” کے ہرزہ سرائی کی ۔اُدھر سُشما سراج جنرل اسمبلی میں پاکستان کے خلاف زہراُگل رہی تھی اوراِدھر بھارت نے سرحدوں پر چھیڑچھاڑ کے ساتھ ہی پاکستان پرحملوں کی دھمکیاں دینی شروع کردیں۔صورتِ حال بالکل ویسی ہی جب بھارت نے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر چڑھ دوڑنے کی دھمکیاں دینی شروع کیں تو پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرکے اپنے ایٹمی قوت ہونے کااعلان کرنا پڑا ۔اب کی باربھارت یہ جاننا چاہتا تھا کہ آیا واقعی پاکستان چھوٹے ایٹمی ہتھیار بنا چکا۔
بھارت کی یہ ترکیب کامیاب رہی اورپاکستان کواعلان کرنا پڑاکہ وہ بھارت کی ”کولڈوار” سے بچاؤ کی خاطر چھوٹے ایٹمی ہتھیار بناچکا۔( بھارتیوںکو ”نوید” ہوکہ 11 دسمبرکو شاہین تھری بیلسٹک میزائل کاکامیاب تجربہ بھی کرچکاجس کی رینج 2750 کلومیٹر اورجو ایٹمی ہتھیار لیجانے کی صلاحیت بھی رکھتاہے )۔ عالمی برادری دہشت گردی کے خلاف جنگ میںپاکستان کی قربانیوںکی معترف اوریہ بھی سبھی کومعلوم کہ پاکستان کی مددکے بغیر افغانستان میں قیامِ امن کا خواب ادھورا۔
India and Pakistan
اُدھرپاک چائنابڑھتے تعلقات اوراقتصادی راہداری پرامریکہ بے چین وبیقرار۔ اُس نے یقیناََ نریندرمودی کوڈانٹ پلائی ہوگی کہ پاکستان سے ”پنگا” لینے کایہ مناسب وقت نہیں، جہاںبھارت گزشتہ چھ عشروںسے ”لار الپّا” لگاتاچلا آرہاہے ، وہاںایک آدھ عشرہ اورسہی۔ اسی عالمی دباؤ کے تحت بھارت مذاکرات کی میزپر آنے کے لیے مجبورہوا اِس لیے وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ پاکستان کی ادھوری ”امن کی آشا” فی الحال پوری ہوتی نظرنہیں آتی۔
تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اوراگر ایک ہاتھ سرہانے دھرے دھرے سوگیاہو توپھر ”تالی” بجنے کاانتظاراحمقوں کی جنت میںبسنے کے مترادف ۔ اُدھردنیا کی نظریں ہارٹ آف ایشیاکانفرنس پر جمی ہوئی تھیںاور اِدھر حکمرانوںنے موقع غنیمت جان کر پی آئی اے کی نجکاری کاا”کھڑاک” کردیا ۔فی الحال پی آئی اے کوغیرسرکاری ادارہ بنانے کے لیے ایک آرڈیننس کے ذریعے ”کارپوریشن” کی بجائے” لمیٹڈ کمپنی” میںتبدیل کیاگیا ہے۔ کہاتو یہی جارہا ہے کہ پی آئی اے کے صرف 26 فیصد انتظامی شیئرز ہی فروخت کیے جارہے ہیں، پی آئی اے کے تمام اثاثے بدستورحکومت کے پاس رہیں گے اورملازمین کوبھرپور تحفظ دیاجائے گالیکن ہمارے وزیرِخزانہ اسحاق ڈارآئی ایم ایف کویقین دلاچکے کہ ایک مقررہ مدت تک پی آئی اے مکمل طورپر غیرسرکاری ادارہ بنادیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ باوجودیکہ وزیرِخزانہ نے پارلیمنٹ میں یہ وعدہ فرمایاکہ پی آئی اے کے معاملے پردوبارہ غورکیا جائے گالیکن اُن کے وعدے پرمتحدہ اپوزیشن اعتبار کرنے کو تیار ہے نہ پی آئی اے کے ملازمین۔ سبھی بیک زبان کہ
تیرے وعدے پہ جیئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
ہمیں یہ سوال کرنے کا حق تو ملنا چاہیے کہ جو حکومت اپنے اداروں کو نہیں سنبھال سکتی، وہ پوراملک کیسے سنبھالے گی؟۔ اگر عزم صمیم ہوتو ناممکن کوبھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان ریلوے کی مثال ہمارے سامنے، جس کی حالت پی آئی اے سے کہیں بدتر تھی لیکن وزیرِ ریلوے خواجہ سعد رفیق کی محنتوں کا ثمرسب کے سامنے کہ اب کوئی ریلوے کی نجکاری کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔