تحریر : محمد آصف اقبال، نئی دہلی دنیا میں دو طبقات ہر زمانے میں پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو اقتدار پر قابض ہے تو دوسرا وہ جو کسی اقتدار کے زیر سایہ ہے۔ وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ برسراقتدار طبقہ عموماً اپنے اختیارات کا صحیح استعمال نہیں کرتا ہے۔ نتیجہ میں ملک و سماج میں کمزور اور مظلومین کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔مظلومین کی تعداد میں اضافے کے ایک معنی یہ ہیں کہ اُن کے ساتھ جاری ظلم و زیادتیوں کا فیصلہ عدل و انصاف کے پیمانہ سے گرا ہوا ہے تو وہیں یہ بھی ہیں کہ راست یا بلاواسطہ اُن انتہا پسند، شرپسند اور گنڈہ عناصر کو برسراقتدار طبقہ کی خاموش حمایت حاصل ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ جب سے ممالک کی حد بندیاں کی گئیں اور بین الاقوامی سطح پر ایک ملک کو دوسرے ملک کے اُن داخلی امور سے روکا گیا ،جہاں عوام ظلم و زیادتیوں کے شکار تھے،اسی وقت سے سرد جنگ اور پروکسی وارکے الفاظ بھی تخلیق پائے ہیں۔ویسے تواصطلاحی معنی میں ‘سرد جنگ’ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور سوویت یونین اور ان کے متعلقہ اتحادیوں کے درمیان 1940ء سے 1990ء کی دہائی تک جاری رہنے والے تنازع، تناؤ اور مقابلے کے لیے استعمال ہواہے۔جس عرصہ میں یہ دو عظیم قوتیں مختلف شعبہ ہائے حیات میں ایک دوسرے کی حریف رہیں جن میں عسکری اتحاد، نظریات، نفسیات، جاسوسی، عسکری قوت، صنعت، تکنیکی ترقی، خلائی دوڑ، دفاع پر کثیر اخراجات، روایتی و جوہری ہتھیاروں کی دوڑ اور کئی دیگر شعبہ جات شامل ہیں۔
یہ امریکہ اور روس کے درمیان براہ راست عسکری مداخلت کی جنگ نہ تھی لیکن یہ عسکری تیاری اور دنیا بھر میں اپنی حمایت کے حصول کے لیے سیاسی جنگ کی نصف صدی تھی۔ اس کے باوجود کہ امریکہ اور سوویت یونین دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے خلاف متحد تھے لیکن بعد از جنگ تعمیر نو کے حوالے سے ان کے نظریات بالکل جدا تھے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بعد کی چند دہائیوں میں سرد جنگ یورپ اور دنیا کے ہر خطے میں پھیل گئی۔ امریکہ نے اشتراکی نظریات کی روک تھام کے لیے خصوصاً مغربی یورپ، مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں کئی ممالک سے اتحاد قائم کیے۔ اس دوران کئی مرتبہ ایسے تنازعات پیدا ہوئے جو دنیا کو عالمی جنگ کے دہانے پر لے آئے جن میں برلن ناکہ بندی (1948 ـ1949ء )، جنگ کوریا (1950 ـ1953ء )، جنگ ویتنام (1959 ـ1975ء )، کیوبا میزائل بحران (1962ء ) اور سوویت افغان جنگ (1979 ـ1989ء ) قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ ایسے ادوار بھی آئے جس میں دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں کمی واقع ہوئی۔ 1980ء کی دہائی کے اواخر میں سرد جنگ اس وقت اختتام پذیر ہونے لگی جب سوویت رہنما میخائل گورباچوف نے امریکی صدر رونالڈ ریگن سے متعدد ملاقاتیں کیں اور ساتھ ساتھ اپنے ملک میں اصلاحاتی منصوبہ جات کا اعلان کیا۔ اس دوران روس مشرقی یورپ میں اپنی قوت کھوتا رہا اور بالآخر 1991ء میں تاش کے پتوں کی طرح بکھر گیا۔
America and Russia
سرد جنگ کی اس مختصر تاریخ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ذہنوں میں یہ بات خوب اچھی طرح واضح ہو جائے کہ دو ممالک یا ایک ہی ملک کے اندر دو مختلف نظریہ ہائے حیات کے درمیان جو دوریاں اورنفرتیں محسوس ہوتی ہیں، ان کے پس پشت برسراقتدار طبقہ کا اہم کردار ہوتا ہے۔اس کی شہادت نہ صرف ان کی پالیسیاں دیتی ہیں بلکہ اقدامات شواہد بنتے ہیں۔چونکہ یہ نفرتیں اور دوریاں ہی سماج کو اکثریت اور اقلیت میں تقسیم کرتی ہیںلہذا ملک میں ایک طبقہ ہمیشہ خوف کے ماحول میں رہتا ہے تو دوسرا پر اطمینان زندگی گزارتے ہوئے مادی ترقی اور وسائل پر قبضہ کرتاہے۔نتیجہ میں ایسے مواقع پر برسراقتدار طبقہ کے افکار و نظریات بھی تیزی سے فروغ پاتے ہیں ۔وطن عزیز ہند وستان میں بھی یہ کھیل آزادی سے قبل ہی جاری رہا ہے۔لیکن چونکہ ملک انگریزوں کا غلام تھااس لیے اس مدت میں ملک کے مختلف طبقات غلامی کا طوق اپنی گردن سے نکالنے کے لیے کسی حد تک متحد تھے۔
اِس کے باوجود کہ اُس مدت میں بھی ایک قلیل تعداد انگریزوں کی غلامی کو اپنے لیے عافیت سمجھتی تھی۔اوریہ تلخ حقیقت ہے کہ اس قلیل تعداد میں ہندومسلمان،دونوں ہی شامل تھے۔لیکن جب سے ملک تقسیم کے نام پر ،آزاد ہوا،تب ہی سے ان دوممالک کے درمیان نہ صرف جنگیں ہوئیں بلکہ سرد جنگ اور پروکسی وار،حد درجہ بڑھی ہوئی ہر شخص محسوس کر سکتا ہے۔سرد جنگ کی مختصر تاریخ میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ اس کی ابتدا ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ہوئی تھی۔لیکن سوویت یونین کے شیرازہ بکھرتے ہی سرد جنگ نے اپنا دائرہ مزید وسیع کیا ۔اور اب یہ دائرہ دنیا کی دو طاقتوں کے درمیان نہیں بلکہ دنیا کی واحد ترین طاقت اور اس کے ہمنوائوں نے ،اپنے ذاتی مفاد کی خاطر دنیا وسیع سے وسیع تر کیا ہے۔نتیجہ میں آج دنیا دوواضح حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔
اسی تقسیم کا نتیجہ ہے کہ دنیا میں امن و امان غارت ہو اہے،چہار جانب فساد برپا ہے ،اورانسان اپنے ہی جیسے انسانوں کے خون کا پیاسا ہو گیا ہے۔ہر گروہ دوسرے کو زیر کرنے میں مصروف ہے۔اور پورے عمل میں سب سے زیادہ نقصان معصوم بچوں کی شکل میں آئندہ آنے والی نسلوں کا ہو رہا ہے۔جن کی زندگیاں آج خون و آگ کے شعلوں پر ،پروان چڑھ رہی ہے۔
دنیا کی موجودہ صورتحال کا پس منظر جو یہاں بیان ہواہے ۔اس کے پس پشت ایک اور اصطلاح و عمل جاری ہے،جسے ‘عظیم چالبازیاں’ ( The Great Game) کہتے ہیں۔یہ اصطلاح 19 ویں اور 20 ویں صدی میں وسط ایشیا پر بالادستی کے حصول کے لیے سلطنت برطانیہ اور سلطنت روس کے درمیان ہونے والی مسابقت اور تنازع کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اولین ‘عظیم کھیل ‘کا دور عام طور پر 1813ء کے روس فارس معاہدے سے 1907ء کے انگریز روس معاہدے تک تسلیم کیا جاتا ہے۔ 1917ء میں بالشیوک انقلاب کے بعد ایک دوسرے ،لیکن کم شدت کے دور کا آغاز ہوا۔اس دور میں عظیم کھیل کی اصطلاح کو عموماً آرتھر کونولی (1807 – 1842ء ) سے منسوب کیا جاتا ہے۔جو برطانوی شرق الہند کمپنی کے چھٹے بنگال گھڑ سوار دستے میںجاسوس افسر تھا۔ اس اصطلاح کو عوامی سطح تک برطانوی ناول نگار روڈیارڈ کپلنگ کے ناول ،کم (Kim) (1901ء ) نے پہنچایا۔فی الوقت دنیا میں جاری عالمی قوتوں کی ریشہ دوانیوں اور مفادات کے باعث اب بھی سمجھا جاتا ہے کہ عظیم کھیل جاری ہے جس کا مقصد اُن ممالک کے قدرتی وسائل پر قبضہ جمانا ہے،جو وافر مقدار میں وہاں موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس جدید ‘عظیم کھیل ‘میں امریکہ کی زیر قیادت نیٹو اور روسـچین اتحاد برسر پیکار ہیں۔
Wars
واقعہ یہ ہبھی ہے کہ بین الاقوامی اصطلاحات اور اس کے اثرات سے اندرونی و بیرونی سطح پر آج دنیا کا ہر ملک نہ صرف متاثر ہے بلکہ نئے اصطلاحات کے ساتھ اس کو فروغ بھی دے رہاہے۔اُسی کا نتیجہ ہے کہ مختلف ممالک کے اندر ون خانہ موجود مختلف گروہوں کے درمیان نہ صرف سرد جنگ جیسے حالات پیدا ہو گئے ہیں بلکہ عظیم چالبازیاں نئے پیرایوں میں بڑے پیمانہ پرجاری ہیں۔کچھ ایسے ہی حالات آزادی کے بعد سے وطن عزیز ہندوستان میں بھی کبھی منظم تو کبھی غیر منظم انداز میں جاری ہیں۔لیکن اس پورے کھیل میں یہ واضح کرنا حددرجہ مشکل ہے کہ مختلف اوقات میں موجود برسراقتدار طبقہ نے کیا اور کیسے اپنا خاموش کردار ادا کیا ہے ۔تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ جس طرح آج واضح انداز میں ملک میں فرقہ پرست طاقتیں اپنے آپ کو مضبوط سمجھ رہی ہیں،تنازعات اور اختلافات نے تشددکی شکل اختیار کر لی ہے،کہا جا سکتا ہے کہ یہ ٹکرائو آج سے پہلے اس قدر بڑھا ہوا نہیں تھا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے پر امن افرادو گروہ بھر پور اندا زمیں ان حالات کا مقابلہ کریں۔مقابلہ اُنہیں کے طرز عمل کو اختیار کرکے نہیں بلکہ مقابلہ اس صورت میں کہ زبان و علاقہ اور مذہب و نسل سے اوپر اٹھ کر ملک میں امن اور انسانیت کے قیام اور ظلم و زیادتیوں کے خاتمہ کے لیے مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے ساتھ ہی اسے استحکام بھی حاصل ہو۔کیونکہ ظلم و زیادتیوں پر خاموشی اختیار کیے رہنا،خود ظلم و زیادتیوںکے فروغ میں شامل ہونے جیسا ہی ہے۔
یہ طرز عمل ،ہمیں ، ہمارے خاندان،بستی و قریہ،علاقہ اور شہر اورپورے ملک کو ،کب اپنی چپیٹ میں لے لے؟کچھ کہا نہیں جا سکتا۔لہذا ضرورت ہے کہ قبل از وقت ہم ہوش میں آئیں، کیونکہ جس وقت آگ اور خون کی ہولی سے ہم خود متاثر ہوں گے،اور دنیا خاموش تماشائی بنے افسوس بھرے کلمات دہرائے گی،اس وقت جس قدر درجہ کرب و اذیت میں ہم مبتلا ہوں گے،اسے بروقت سمجھنا مشکل ہے۔ اس کے باوجود ہوش مند وہی کہلائے گا جو قبل از وقت امن اور انسانیت کے قیام میں مصروف عمل ہو جائے۔