وزیراعظم کی تقریر بہت سوں کے لیے حیرانی کا باعث بنی۔ عمومی طور پر توقع کی جا رہی تھی کہ وہ طالبان کے خلاف فوجی کریک ڈاؤن کا اعلان کریں گے لیکن انھوں نے مذاکرات کا راستہ اختیار کرتے ہوئے امن کو آخری موقع دینے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے واضح کیا ,, مجھے علم ہے کہ آج اگر ریاست دہشت گردوں کا خاتمہ کرنا چاہے تو پوری قوم اس کی پشت پر کھڑی ہو گی۔
تاہم اب جبکہ دوسری طرف سے مذاکرات کی پیش کش سامنے آچکی ہے تو ہم ماضی کے تلخ تجربات کو پس پشت رکھتے ہوئے پرامن حل کو ایک اور موقع دینا چاہیے۔،، آل پارٹیز کانفرنس میں میں حکومت کو مذاکرات کرنے کا مینڈیٹ ملنے کے بعد سے شک و شبہات کی فضا قائم تھی۔
جن پارٹیوں نے حکومت کی پیٹھ ٹھونکی تھی اور ہر طرح کے نتائج کا سامنا کرنے کا عزم کیا تھا ان پارٹیوں کو اعتماد میں نہیں لیا جا رہا تھا گوں مگوں کی اس کیفیت میں افواہ سازوں نے میدان کو خوب گرمایا جس میں دہشت گردوں کو فائدہ ہوا اور انھوں نے سوسائٹی کے ہر طبقے اور ریاست کے ہر ادارے پر تابڑ توڑ حملے کیے، بے گناہوں کو خون سے ہاتھ رنگنے اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہچانے میں حد سے گزر گئے۔
ان حالات میں عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور پارلیمنٹ میں ڈھیلی ڈمالی اور فرینڈلی اپوزیشن کی بجائے ایک حقیقی اپوزیشن نے سر ابھارا جس نے وزیراعظم کو پارلیمان میں حاضر ہونے پر مجبور کیا اور دہشت گردی کے حوالے سے پالیسی بیان جاری کرنے کے لیے مسلسل دباؤ ڈلا جس میں وہ بلاآخر کامیاب رہے۔
وزیراعظم نے اپنی تقریر میں مزید کہا ,, اس سلسلے میں مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے میں چار رکنی کمیٹی کا اعلان کر رہا ہوں جس میں عرفان صدیقی، میجر عامر، رحیم اللّہ یوسف زئی اور رستم شاہ مہمند شامل ہیں، چوہدری نثار وزیر داخلہ چوکی مذاکراتی عمل کے فوکل پرسن ہیں کمیٹی کی معاونت کریں گے، میں خود براہ راست مذاکراتی عمل کی نگرانی کروں گا۔
مذاکرات کے حکومتی فیصلے کے فوری بعد طالبان اور شدت پسندوں کے پچاس سے زیادہ گروپوں میں سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور پنجابی طالبان نے فوری رد عمل ظاہر کیا۔ ٹی ٹی پی کے مرکزی ترجمان شاہد اللّہ شاہد نے کہا کہ مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ شوری کے اجلاس میں کیا جائے گا جبکہ تحریک پنجاب کے سربراہ مولانا عصمت اللّہ معاویہ نے مذاکرات کا خیر مقدم کیا ہے۔
Taliban
ایم کیو ایم اور مجلس وحدت المسلمین نے مذاکرات کی پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے کیا طالبان پاکستانی ریاست کی فریق (STAKE HOLDER) ہیں؟ اور اگر مذاکرات محض ایک مذاکراتی چال نہیں تو حکومت مذاکرات کے حوالے سے ٹائم فریم دینے سے گریزاں کیوں ہے؟ مذاکراتی کمیٹی کے اراکین کے انتخاب میں سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت نے ان اراکین سے رابطہ کئے بغیر ان کے ناموں کا اعلان کر دیا۔
کمیٹی کے اختیارات ان کی ذمہ داریوں کا تعین تو بہت دور کی بات ہے۔ ارکان کمیٹی اس سلسلے میں تزبذب کا شکار ہیں۔ مذاکراتی کمیٹی کے ایک رکن رحیم اللّہ یوسف زئی کے مطابق حکومت نے انھیں نہ تو باقی اراکین سے ملوایا ہے اور نہ ہی واضح طور پر بتایا ہے کہ آخر حکومت کا مذاکراتی پلان ہے کیا؟ تاہم انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ جب تک دوسری جانب سے کوئی کمیٹی نہیں بنے گی بات آگے نہیں بڑے گی۔
کہا جاتا ہے کہ حکومت دہشت گردی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کا عممل شروع کرنے سے پہلے آصف علی زرداری، افتخار محمد علی چوہدری اور اشفاق پرویز کیانی کے ریٹائرڈ ہونے کے انتظار میں تھی۔ ان شخصیات کی موجودگی میں دہشت گردی کو بذور طاقت کچلنے میں کچھ رکاوٹٰیں حائل تھیں۔
حکومت اب طالبان اور شدت پسند عناصر کو کچلنے کیلئے بھرپور طاقت کا استعمال کرے گی۔ حکومت کی پالیسی مذاکرات کی آڑ میں انتہائی خاموش ٹارگٹڈ آپریشن پر مبنی ہے۔ برطانوی اخبار گارڈ ئین کو انٹر ویو دیتے ہوئے پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللّہ واضح طور پر انکشاف کر چکے ہیں کہ فوجی آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
انتظار فوج کے اس فیصلے کا ہے کہ آپریشن کب اور کس قسم کا ہو گا لیکن حکومت کو اپنی دوھری پالیسی کے حوالے سے یاد رکھنا چاہیے سابقہ حکومتوں کی دوغلی، چالوں کے مارے طالبان پہلے ہی ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔