تحریر: محمد عمر ریاض امن، سماج کی اس کیفیت کا نام ہے جہاں تمام معاملات معمول کے ساتھ بغیر کسی پر تشدد اختلافات کے چل رہے ہوں۔ امن کا تصور کسی بھی معاشرے میں تشدد کی غیر موجودگی یا پھر صحت مند، مثبت بین الاقوامی یا بین انسانی تعلقات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں معاشرے کے تمام افراد کو سماجی، معاشی، مساوت، اور سیاسی حقوق و تحفظ حاصل ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں، امن کا دور اختلافات یا جنگ کی صورتحال کی غیر موجودگی سے تعبیر ہے۔ امن بارے تحقیق اس کی غیر موجودگی یا تشدد کی وجوہات کا احاطہ بھی کرتی ہے۔ عمومی طور پر امن تباہ کرنے میں عدم تحفظ، سماجی بگاڑ، معاشی عدم مساوات، غیر متوازن سیاسی حالت، قوم پرستی، نسل پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی جیسے عوامل شامل ہوتے ہیں۔
امن کی عمومی تعریف میں کئی معنی شامل ہوتے ہیں۔ ان میں مجموعی طور پر امن کو تحفظ، بہتری، آزادی، دفاع، قسمت اور فلاح کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ انفرادی طور پر امن سے مراد تشدد سے خالی ایک ایسی طرز زندگی کا تصور لیا جاتا ہے جس کی خصوصیات میں افراد کا ادب، انصاف اور عمدہ نیت مراد لی جاتی ہے ۔معاشرے میں انفرادی طور پر امن کی حالت ہر فرد پر یکساں لاگو ہوتی ہے ، جبکہ مجموعی طور پر کسی بھی خطے کا پورا معاشرہ مراد لیا جاتا ہے۔
دنیا کی مختلف زبانوں میں لفظ امن یا سلامتی کو خوش آمدید یا الوداعی کلمات کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر ہوائی زبان کا لفظ Aloha یا پھر عربی زبان کا لفظ سلام، امن یا سلامتی کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ الفاظ الوداعی یا خوش آمدیدی کلمات کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ انگریزی زبان میں PEACE کا لفظ الوداعی کلمات میں استعمال ہوتا ہے ، خاص طور پر مردہ افراد کے لیے ایک فقرہ استعمال ہوتا ہے جیسے ،Rest in Peace ۔موجودہ عالمی اور ملکی حالات کے تناظر میں امن کی ضرورت و اہمیت اور اس کی افادیت فرد سے لے کے معاشرے تک ہر طبقہ فکر کی اشد ضرورت بن چکی ہے۔
نائن الیون کے بعد دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ناسور نے جہاں اسلامی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا وہیں ارضِ وطن پاکستان بھی اس کے مضر اور جان لیوا اثرات سے محفوظ نہ رہ سکا۔خود کش حملے،بم دھماکے،ٹارگٹ کلنگ کے واقعات سمیت دیگر سانحات میں اب تک ٧٠ ہزار کے لگ بھگ پاکستانی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔دو لاکھ کے قریب پاکستانی ان حملوں میں اپنے جسمانی اعضاء سے محروم ہوئے،اپاہج ہوئے اور ہزاروں خاندانوں کو کربناک اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔حال ہی میں پشاور آرمی پبلک سکول کے ڈیڑھ سو سے زائد معصوم بچے دوران تدریس دہشت گردوں کی سفاکانہ اور بہیمانہ کارروائی کے نتیجے میں جامِ شہادت نوش کر گئے۔
دہشت گردوں نے افواجِ پاکستان،پولیس،قانون نافذ کرنے والے اداروں،حساس اداروں،جی ایچ کیو،عام عوام ،مساجد،امام بارگاہوں اور گرجا گھروں کو بھی نشانہ بنایا۔ایسے عالم میں جب دہشت گردوں کے نزدیک سب کا قتل کرنا ناگزیر ہے ،ہمارے اربابِ حل و عقد کے پاس اس زہر کو قابو کرنے کی کوئی قومی پالیسی ہی نہ تھی۔عین اس وقت جب خود کش حملوں کے خلاف آواز اٹھانے پر ڈاکٹر سرفراز نعیمی،مولانا حسن جان اور ڈاکٹر زبیر خان کو شہید کر دیا گیا۔
Terrorism
اس اندوہناک صورتحال میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے نہ صرف پاکستان اور عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کی امن و سلامتی کیلئے اسلام کی اصل روح اور تعلیمات سے مزین چھ سو صفحات پر مشتمل علمی،فکری،تحقیقی اور تاریخی نوعیت کا مبسوط فتویٰ بعنوان دہشت گردی اور فتنہ خوارج لکھا جس نے شرق تا غرب اسلام کی تعلیمات امن کو عام کیا اور فتنہ خوارج اور عصر حاضر کے دہشت گردوں کو تاریخی اعتبار سے بے نقاب کیا۔ڈاکٹر طاہرالقادری کے اس فتوے میں مستند احادیث کی روشنی میں عصر حاضر کے خوارج (داعش،طالبان) کی علامات،ان کا گھنائونا کردار،ان کے بارے میں نبی کریمۖ کی پیشن گوئیوں کو واضح کیا۔
خوارج کے بارے میں ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے فتوے میں صحاح ستہ(احادیث کی چھ مستند کتب) کے حوالوں سے کتاب الفتن،کتاب استتابہ والمرتدین والمعاندین کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نبی کریم ۖ نے فرمایا: خوارج جہنم کے کتے ہیں،مخلوق میں سے بدترین ہیں،ناپختہ ذہن کے حامل ہیں،معصوم لوگوں کے قاتل ہیں،ان کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہونے والے کو جنت کے دس درجات ملیں گے۔یہ تمام علامات عصر حاضر کے دہشت گردوں میں پائی جاتی ہیں کہ کم عمر لڑکوں کو خود کش حملوں کیلئے اکساتے ہیں،معصوم لوگوں کا قتلِ عام کرتے ہیں۔شیخ الاسلام نے اپنا قلمی جہاد اس محاذ پر جاری رکھتے ہوئے نوجوان نسل کو اسلام کے حقیقی تصور امن سے آشنا کیا اور اس موضوع پر ٢٥ سے زاہد تصانیف لکھیں۔حال ہی میں لندن میں اسلام کے نصابِ امن اور کائونٹر ٹیرارزم پر مشتمل سلیبس کی تقریب رونمائی ہوئی جس میں اہل علم و دانش،سکالرز،غیر مسلم محققین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
اس تقریب کو عالمی سطح پر بڑی پزیرائی ملی اور اسلام کا اصل تشخص مغربی دنیا کے سامنے اجاگر ہوا۔مغربی میڈیا نے اس سلیبس کو بھرپور کوریج دی اور اسے ساری دنیا کیلئے امن اور سلامتی کا ضامن قرار دیا جو نہ صرف شیخ الاسلام کیلئے بلکہ پوری پاکستانی قوم کیلئے فخر اور وقار کا باعث ہے۔٢٩ جولائی ٢٠١٥ کو اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں اس امن سلیبس کے اردو نصاب کی تقریب رونمائی ہوئی جس میں ملک کے ممتاز دانشوروں،سکالرز،احبابِ فکر و دانش، ڈپلومیٹس اور تمام طبقہ فکر کے کلیدی افراد نے شرکت کی۔اس موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے نصابِ امن کی افادیت اور کائونٹر ٹیرارزم پر مفصل خطاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ سلفی امام ابن تیمیہ کے نزدیک اپنے نظریات کے خلاف لوگوں کا قتل جائز سمجھنے والے خوارج ہیں جو دجال کے زمانے تک نکلتے رہیں گے۔ڈاکٹر طاہرالقادری کے بقول دہشت گردوں کے پاس نہ اسلام ہے،نہ شہادت ہے،نہ دلیل ہے،یہ فقط خوارج ہیں،جنہیں ختم کرنے کا حکم حضورۖ نے دیا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ تمام فقہی مذاہب و مکاتبِ فکر کے نزدیک دہشت گرد مجاہد، شہید یا غازی نہیں، بلکہ ڈاکو، باغی اور خارجی ہیں۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ دہشت گرد اور ان کے ہمدرد و ہمنوابتائیں کہ ان کا نام نہاد جہادسنت و سیرت رسولۖ کی کون سی قسم سے تعلق رکھتا ہے؟قوم کو مبارک ہو کہ ہم نے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ٢٥ کتابیں اردو اور انگریزی میں تصنیف کی ہیں۔انہوں نے کہا کہ قوم کو انتظار ہے کہ افواجِ پاکستان سیاسی اور معاشی دہشت گردوں کے خلاف بھی آپریشن ضربِ عضب شروع کریں گی۔اس موقع پر مختلف دانشوروں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کی اس شاندار علمی کاوش کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔سوال ہی ہے کہ حکومت وقت کب اس عظیم علمی کام کو شامل نساب کر کے آنے والی نسلوں کو اسلام کے امن کے تصور سے روشناس کرے گی اور دہشت گردی کے خلاف اس نصاب کی روشنی میں جامع اور مربوط پالیسی اپنائے گی۔