اوسلو (اصل میڈیا ڈیسک) سال رواں کا امن کا نوبل انعام فلپائن کی ماریا ریسا اور روس کے دیمتری مراتوف کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان دونوں صحافیوں کے لیے مشترکہ طور پر اس اعزاز کا فیصلہ آزادی اظہار کے لیے ان کی انتھک جدوجہد کی وجہ سے کیا گیا۔
ناروے کے دارالحکومکت اوسلو میں جمعہ آٹھ اکتوبر کے روز نوبل پیس پرائز کمیٹی کی طرف سے کیے گئے اعلان کے مطابق ان دونوں شخصیات نے اپنے اپنے معاشروں میں اظہار رائے کی آزادی کے لیے بےمثال کوششیں کیں۔
ادب کا نوبل انعام تنزانیہ کے ادیب عبدالرزاق گورنا کے نام
نوبل امن انعام کی حق دار شخصیت، شخصیات یا تنظیم کا انتخاب کرنے والی کمیٹی کی سربراہ بیرِٹ رائس اینڈرسن نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہا، ”آزادانہ، غیر جانب دارانہ اور حقائق کی بنیاد پر کی جانے والی صحافت انسانوں کو طاقت کے غلط استعمال، جھوٹ اور پروپیگنڈا سے بچاتی ہے۔‘‘
رائس اینڈرسن نے اوسلو میں ایک پریس کانفرنس میں کہا، ”آج کے دور میں اظہار رائے کی آزادی اور آزادی صحافت کے بغیر اقوام کے مابین اخوت کی کامیاب ترویج، ہتھیاروں میں کمی کا عمل اور ایک بہتر دنیا کی تشکیل سب کچھ بہت مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
سال 2021ء کے امن کے نوبل انعام کی حق دار قرار دی گئی فلپائن کی خاتون صحافی ماریا ریسا 2012ء میں شروع کی گئی نیوز ویب سائٹ رَیپلر (Rappler) کی شریک بانی ہیں۔
انہیں اس اعزاز کے لیے منتخب کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے نوبل امن انعام کمیٹی کی طرف سے کہا گیا، ”اس نیوز ویب سائٹ نے اپنی توجہ بڑے تنقیدی انداز میں صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے کی حکومت کی فلپائن میں منشیات کے خلاف بہت ہلاکت خیز اور انتہائی متنازعہ مہم پر مرکوز رکھی۔‘‘
اس کے علاوہ ماریا ریسا اور ان کی نیوز ویب سائٹ رَیپلر نے اس امر کے دستاویزی ثبوت بھی جمع کیے کہ کس طرح اس حکومتی مہم کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں اور مخالفین کو ہراساں کرنے کے علاوہ عوامی رائے پر بہت نپے تلے انداز میں اثر انداز ہونے کی کوششیں بھی کی گئیں۔
امسالہ نوبل امن انعام کی حق دار قرار دی گئی دوسری شخصیت روسی صحافی دیمیتری مراتوف کی ہے۔ انہوں نے چند دیگر افراد کے ساتھ مل کر 1993ء میں روس میں ایک آزاد اور غیر جانبدار اخبار ‘نووایا گازیٹا‘ کی بنیاد رکھی تھی۔
پاکستان کی ملالہ یوسف زئی اور بھارت کے کیلاش ستیارتھی کو دس دسمبر کو ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں مشترکہ طور پر نوبل امن انعام دے دیا گیا۔ اس سے قبل ملالہ اور ستیارتھی نے کہا تھا کہ وہ دونوں پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں۔
نوبل پیس پرائز کمیٹی نے مراتوف کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا، ”روس میں نووایا گازیٹا آج کے دور کا آزاد ترین جریدہ ہے، جس کا حکمرانوں کے بارے میں بنیادی رویہ انتہائی تنقیدی ہے۔‘‘
نوبل پیس کمیٹی کی سربراہ بیرِٹ رائس اینڈرسن کے الفاظ میں، ”اس اخبار کی طرف سے حقائق کی بنیاد پر کی جانے والی صحافت اور دیمیتری مراتوف کی پیشہ وارانہ ایمانداری نے اس جریدے کو روسی معاشرے کے ان قابل اعتراض پہلوؤں کے بارے میں درست معلومات کے حصول کا بہت اہم ذریعہ بنا دیا ہے، جن کا روس کے دیگر ذرائع ابلاغ میں کوئی ذکر ہی نہیں کیا جاتا۔‘‘
دیمیتری مراتوف اور ان کا اخبار اگرچہ روسی حکمرانوں پر کھل کر اور شواہد کے ساتھ تنقید کرتے ہیں، تاہم مراتوف کو نوبل انعام دینے کے فیصلے کے بعد خود کریملن حکام بھی خاموش نہ رہ سکے۔
سال 2013ء کے لیے امن کا نوبل انعام کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے عالمی ادارے ’آرگنائزیشن فار پروہیبیشن آف کیمیکل ویپنز‘ OPCW کو دیا گیا ہے۔ یہ ادارہ کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق 1997ء میں منظور ہونے والے عالمی کنونشن کے تحت دنیا بھر میں کیمیائی ہتھیاروں کی صورتحال پر نظر رکھتا ہے۔ رواں برس اکتوبر میں اس ادارے کو شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کا کام سونپا گیا تھا۔
روس میں اقتدار کا مرکز ماسکو میں کریملن ہے، جہاں صدر ولادیمیر پوٹن کا سرکاری دفتر ہے۔ آج جمعے کے روز اوسلو میں کیے جانے والے اعلان کے بعد کریملن کے ترجمان دیمیتری پیسکوف نے اپنے ہم وطن مراتوف کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا، ”وہ ایک باصلاحیت اور بہادر انسان ہیں۔‘‘
پیسکوف نے ایک آن لائن پریس کانفرنس میں کہا، ”ہم دیمیتری مراتوف کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے آئیڈیلز کے تحت بڑی مستقل مزاجی سے کام کیا ہے۔ ایک باصلاحیت اور بہادر انسان، یہ بہت بڑا اعزاز ہے اور ہم انہیں مبارک دیتے ہیں۔‘‘
ماریا ریسا اور دیمیتری مراتوف دونوں کو نوبل امن انعام کے طور پر گولڈ میڈلز دیے جانے کے علاوہ مشترکہ طور پر 10 ملین سویڈش کرونا یا 1.14 ملین ڈالر کے برابر نقد رقم بھی دی جائے گی۔
اس سال نوبل پرائز جیتنے والی شخصیات کو یہ اعزازات دسمبر میں منعقد ہونے والی ایک تقریب تقسیم انعامات میں دیے جائیں گے۔