نیویارک (جیوڈیسک) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے امن فوجیوں کی طرف سے جنسی بدسلوکی اور استحصال کے خلاف فیصلہ کن اور جرات مندانہ کارروائی کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس جنسی استحصال کے 69 الزمات سامنے آئے۔ اس طرح کا استحصال اقوام متحدہ اور ان لوگوں کے درمیان بداعتمادی کا باعث بنتا ہے۔
جن کی حفاظت کے لیے انہیں بھیجا جاتا ہے۔ صرف گزشتہ سال اقوام متحدہ کے فوجیوں کے خلاف استحصال کے 69 الزامات سامنے آئے۔انہوں نے کہا کہ یہ ان اقدار اور اصولوں کے منافی ہے جن کے فروغ کے لیے اقوام متحدہ کام کر رہی ہے ۔جمہوریہ وسطی افریقہ میں اقوام متحدہ کے مشن پر جنسی بدسلوکی اور استحصال کے خلاف سب سے زیادہ الزامات عائد کیے گئے۔جن میں سے 22 گزشتہ سال سامنے آئے جبکہ 2016 میں بھی الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے کئی سالوں سے اس قسم کے جرائم کے خلاف مکمل عدم برداشت کی پالیسی اپنا رکھی ہے مگر ایسے کیسوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔گزشتہ ماہ اس موضوع پر جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں سیکرٹری جنرل نے اقوام متحدہ کے ردعمل کو تقویت دینے کے لیے نئے اقدامات تجویز کیے ہیں جن میں جرم سے استثنی کا خاتمہ، متاثرین کی امداد اور جرائم کے مرتکب افراد کا احتساب شامل ہیں۔
سیکرٹری جنرل نے فوجی اور پولیس اہلکار بھیجنے والے ملکوں سے کہا ہے کہ وہ ان مشنوں میں کورٹ مارشل کریں جہاں مبینہ بدسلوکی ہوئی۔ انہوں نے جرائم کا ارتکاب کرنے والے مشتبہ افراد کے ڈی این اے نمونے حاصل کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔بان کی مون نے الزامات کی تحقیقات تین سے چھ ماہ کے دوران مکمل کرنے کی بھی سفارش کی ہے۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ امن فورس کے جن اہلکاروں کے خلاف الزامات ثابت ہو جائیں ان کی تنخواہیں متاثرین کی امداد کے لیے بنائے گئے ٹرسٹ فند میں منتقل کر دی جائیں۔
ایسے واقعات میں جہاں ایک ہی دستے کے متعدد اہلکاروں پر جنسی بدسلوکی یا استحصال کا الزام ہو تو پورے دستے کو اپنے ملک واپس بھیج دیا جائے۔ ایسا پہلے ہی ہو چکا ہے جب جمہوریہ کانگو کے دستے کو گزشتہ ماہ جمہوریہ وسطی افریقہ سے واپس اپنے ملک بھیج دیا گیا۔