پاکستان کے تعاون سے افغان امن عمل عارضی تعطل کے بعد افغان طالبان اور امریکا کے درمیان با ضابطہ مذاکراتی عمل دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔ تاہم قطر دور میں جہاں سیاسی مذاکرات ہو رہے تھے تو افغانستان میں افغان سیکورٹی فورسز اور فوجی بیس کیمپوں پر حملوں میں شدت بھی جاری رہی ۔ قطر مذاکرات کا چوتھا اور اہم ترین دور کے بعد افغان امن عمل کا امذاکراتی دور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہورہا ہے اور اس بات کی توقعات ہیں کہ امریکا فیصلہ کن پوزیشن میں ہوگا اور دونوں فریقین اپنے موقف میں لچک کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔
حالیہ مذاکرات میں قطر میں ذرائع کے مطابق محمد عباس ستانکزئی، مولانا فاضل، مولانا خیراللہ خیرخواہ، شہاب الدین دلاور، قاری دین محمد اور عبدالسلام حنفی شریک تھے۔ چھ روزہ مذاکرات میں افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلائ، جنگ بندی، طالبان رہنماؤں کے نام بلیک لسٹ سے نکالنا، قیدیوں کا تبادلہ اور اعتماد کی بحالی پر زیادہ بحث ہوئی۔ہائی پیس کونسل کو افغان امن عمل میں شریک نہ کئے جانے پر صدر اشرف غنی نے پھر ناراضگی کا اظہار کیا لیکن افغان طالبان اپنے موقف پر قائم رہے ۔قطر میں مذاکرات کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہونے کی امید ہے جو ممکنہ حل کا اہم ترین عمل قرار دیا جارہا ہے ۔ پاکستان تمام تر دبائو کے باوجود خطے میں امن کا خواہاں ہے ۔
قطر میں افغان طالبان اور امریکا کے درمیان براہ راست مذاکراتی دور کابل انتظامیہ کے احتجاج کے باعث افغان طالبان نے موخر کردیا تھا تاہم امریکی صدر کے خصوصی ایلچی برائے افغان امور زلمے خلیل زاد نے اسلام آباد میں اپنے قیام میں توسیع کی اور بالاآخر افغان طالبان کے تحفظات دور کرنے کی یقینی دہانی کے بعد قطر مذاکرات ممکن ہوئے۔ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کاعالمی سطح پر بڑی باریکی سے جائزہ لیا جارہاہے ۔امریکی صدر نے جب شام کے علاوہ افغانستان سے فوجی انخلا ء کا عندیہ دیا تو دنیا کے لئے یہ ایک بہت بڑا غیر متوقع بیان تھا ، یہاں تک کہ پینٹاگون کی جانب سے صدر ٹرمپ کے بیان پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ۔ شام و افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی صدر ٹرمپ کی انتخابی منشور و پالیسی کا حصہ رہا ہے۔
بیشترامریکی سینیٹرزکی جانب سے بھی افغانستان میں امریکی افواج کی مزید موجودگی کو بلاجواز و سرمایہ کے ضیائع قرار دیا چکا ہے ۔ امریکا ، افغان طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے گریز کی راہ اختیار کرتا رہا ہے اور اس کی عموماََ یہی کوشش رہی تھی کہ کابل انتظامیہ کے ساتھ افغان طالبان اور دیگر جنگجو گروپ سیکورٹی معاہدہ کریں ۔ اسی ضمن میں پہلی مرتبہ کابل انتظامیہ نے امارات اسلامیہ کو سیاسی قوت بھی تسلیم کیا اور غیر مشروط طور پر مذاکرات کی دعوت بھی دی تھی ۔ کابل انتظامیہ نے امارات اسلامیہ کو سیاسی قوت تسلیم کرتے ہوئے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ۔ لیکن افغان طالبان نے کابل انتظامیہ کی پیش کش کو رد کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھاکہ کابل انتظامیہ کے پاس فیصلے سازی کے اختیارات نہیں ہیں اس لئے کابل انتظامیہ کے بجائے افغان طالبان ، امریکا سے براہ راست مذاکرات کریں گے۔
صدر ٹرمپ امریکا میں مالیاتی خسارے کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کررہے ہیں اور اپنے انتخابی منشور کے مطابق عمل پیرا ہونے میں انہیں کانگریس میں ڈیموکریٹس اراکین کے سخت رویئے کا سامنا ہے۔ صدر ٹرمپ امریکا کو مالیاتی بحرا ن سے نکالنے کے لئے کسی نہ کسی ایشو کو جواز بنا کر امدادی رقوم میں مسلسل کمی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔فلسطینی امداد میں کمی ، اقوام متحدہ کے فنڈ میں کمی ، عالمی ماحولیاتی معاہدے سے علیحدگی ،شام سے افواج کی واپسی سے اخراجات کی کمی جیسے اقدامات شامل ہیں۔ صدر ٹرمپ نے پاکستان کی امداد کے علاوہ کولیشن فنڈ کو بھی بند کردیا اور اُس گمان کیا کہ اگر افغانستان میں جنگ کا خاتمہ ہوسکتا ہے تو پاکستان ہی اس میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے ۔
صدر ٹرمپ زمینی حقایق کو سمجھنے سے قاصر رہے کہ پاکستان کا اثر رسوخ افغان طالبان پر محدود سطح تک ہے ۔ پاکستان نے ماضی میں امریکی مدد کی وجہ سے مجاہدین کو سوویت یونین کے خلاف بھرپور کمک فراہم کی تھی کیونکہ پاکستان سپرپاور کو اپنی سرحدوں سے دور رکھنا چاہتا تھا ۔ گو کہ اُس وقت پاکستان کی پالیسی پر تعریف و توصیف کی گئی بعد ازاں طویل ہوتی پرائی جنگ پاکستان کی اپنی جنگ میں تبدیل ہوگئی اور اس کے مضر اثرات سے پاکستان محفوظ نہ رہ سکا۔ ہزاروں افراد کی قیمتی جانوں کی قربانی کے علاوہ مالی طور شدید نقصانات نے پاکستان کی معیشت و امن کا ناس کردیا ۔ امریکا، سوویت یونین کے خلاف پاکستان کی مدد سے افغان طالبان کی بھرپورامداد کرتا رہا ، تاہم گزشتہ دنوں جب صدر ٹرمپ نے اس بات کا اظہار کیا کہ افغانستان میں سوویت یونین کی جارحیت درست تھی تو کابل انتظامیہ نے اس پر احتجاج کیا جس کو صدر ٹرمپ نے کوئی اہمیت نہیں دی۔ افغان طالبان اور دیگر جنگجو گروپ تو پہلے ہی سوویت یونین کے خلاف طویل جنگ کرچکے تھے ۔ لیکن 40برس کی مجموعی جنگ میںصرف پانچ برس امن کے بعد 18برسوں سے امریکا اپنے فروعی مفادات کی وجہ سے افغانستان میں امن قائم کرنے میں ناکام ثابت ہوچکا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنی پالیسی میں معمولی تبدیلی کی اور افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات کے علاوہ ، افغانستان میں جاری جنگ میں بھارت کی عدم شمولیت پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ وہ افغانستان میں جنگ کیوں نہیں کررہا ۔ بھارت نے افغانستان کے معدنی وسائل پر قبضے کرنے کے لئے بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ افغان نوجوانوں کی برین واشنگ کرنے لئے بھارت میں خصوصی تربیت اور دہشت گردی کے کیمپ قائم کئے ہوئے ہیں۔ کابل انتظامیہ کو اسرائیلی اسلحہ کی فراہمی سمیت نہتے شہریوں پر بمباریاں اور پاکستان کی سرحدوں پر در اندازی کرنے کے لئے تو بھارت کی سرگرمی سب کے سامنے عیاں ہے لیکن امریکا کی مسلسل کوششوں کے باوجود بھارت ، زمینی جنگ میں اپنی فو جیوں کو بھیجنے سے سخت خوفزودہ ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے ٹڈی دل فوج کی اہلیت کو بخو بی آگاہ ہے کہ ان سے تو مقبوضہ کشمیر میں پتھروں سے مزاحمت کرنے والے قابو میں نہیں آرہے ، بھارتی فوجی بھوکے مر رہے ہیں ، خودکشیاں کررہے ہیں ، اگر انہیں اُس سرزمین پر جنگ کے لئے بھیج دیا گیا جہاں کے حکمرانوں نے ان پر بہادری سے حکومت کی ۔
بھارت ان کی شجاعت کے چرچے اور داستانیں بھارتی عوام سے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ، ہندوستان کی تو یہ حالت تھی کہ چند سواروں کو دہلی کے تخت خوف کے عالم دے چکے تھے کہ جیسے ان پر پوری فوج حملہ آور ہوگئی ہے۔ بھارتی خمیر میں سازشیں اور دیو مالائیں خود ساختہ داستانیں ہی ان کا سرمایہ ہے ۔ ان میں اتنی جرات کہاں کہ ہزاروں برس پر محیط ایک ایسی قوم پر حملہ آور ہوسکیں جن کی سرزمین پر دنیا کی کوئی قوت قدم جمانے میں کامیا ب نہیں ہوسکی اور ہر جارح قوم کے لئے افغانستان کی سرزمین ، قبرستان بنی۔صدر ٹرمپ نے شاید بھارت کی تاریخ اور زمینی حقائق کو سمجھ لیا ہوگا اسی لئے ان کی جانب سے نئے برس پاکستان کے حوالے سے مثبت ٹوئٹ نے سرد تعلقات کو پگھلانے میں اہم کردار ادا کیا ۔
اپنے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد سے تعاون کے لئے خصوصی خط وزیر اعظم پاکستان کو بھیجا اور جلد ملاقات کی خواہش نے پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ماضی میں پاکستان کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کا رویہ نہایت جارحانہ و متعصبانہ رہا ہے اور امریکی صدر کی جانب سے سفارتی آداب کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا ۔ امریکی رویئے کو دیکھتے ہوئے بھارت نے بھی امریکی انتظامیہ جیسا طرز عمل اختیار کیا تو دوسری جانب کابل انتظامیہ کے کندھے پر بندوق رکھ کر پاکستان کے خلاف الزامات و ہرزہ سرائی کی روش اپنائی ۔تاہم جب سے امریکا اور افغان طالبان کے براہ راست مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا اور مثبت پیش رفت کا آغاز ہوا تو کابل انتظامیہ اور بھارت کی پرپریشانی اور حواس باختگی دیدنی تھی ۔کابل انتظامیہ کو افغان امن عمل میں براہ راست شرکت سے افغان طالبان کے مطالبے پر روکا گیا اور افغان طالبان کا خود یہ ماننا رہا تھا کہ امریکا کے سربراہ ساتھ ان کی گفت و شنید اہم مرحلے میں داخل ہو رہی ہے ۔
امریکی افواج کے انخلا ء پر نیٹو کے سربراہ نے پالیسی دیا جس سے کابل انتظامیہ اور بھارت میں مزید تشویش کی لہر دوڑ گئی ۔ بھارت کو اپنی بھاری سرمایہ کاری خطرے میں نظر آنے لگی ۔بھارت اس بات کو جان چکا تھا کہ جب امریکا افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات کے لئے لچک کا مظاہرہ کرچکا ہے اور امریکی فوجیوں کے انخلا کا ارادہ ظاہر کرچکا ہے تو یقینی طور پر کابل حکومت کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا اور کابل حکومت کے ساتھ افغانستان کے قیمتی معدنیات کے معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں رہ جائے گی۔کابل انتظامیہ میں شریک بیشتر حکام اوراہلکارپوست کی کاشت سے اربوں روپے کما رہے ہیں اور دنیا کی80فیصد منشیات کی کھیپ کو پورا کررہے ہیں ۔
اگر افغان طالبان دوبارہ اقتدار میں آجاتے ہیں تو ماضی کی طرح پوست کی کاشت ختم ہوجائے گی اور اس سے کابل انتظامیہ کے ملکی و غیر ملکی منشیات فروشوں کو ناقابل تلافی پہنچے گا اس لئے کابل انتظامیہ نے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات میں رخنہ ڈالنے کے لئے دو ایسے اہم عہدے داروںکا تقرر کیا جو پاکستان سے شدید بغض رکھتے ہیں اور پاکستان کے شدید مخالف تصور کئے جاتے ہیں۔ افغان صدر نے فورسز اور سیاسی سطح پر دو متنازع نامزدگیاں کرکے پیغام دیا کہ کابل انتظامیہ ، امن مذاکرات کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ کابل انتظامیہ نے بھارت کا پلیٹ فارم استعمال کیا اور بھارتی نے واویلا شروع کردیا ۔ افغان امن عمل کے حوالے سے کچھ ایسے معاملات میڈیا میں آئے جن پر افغان طالبان نے تحفظات کا اظہار کیا کہ جب مذاکرات ایک مثبت پیش رفت پر گامزن ہے تو فریقین کو مذاکرات میں ہونے والی گفت و شنید کو افشا و عالمی میڈیا کو قیاس آرائیوں سے تمام عمل کو مشکوک بنانے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے بد اعتماد ی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔لیکن کابل انتظامیہ جس کا شروع سے یہ دعویٰ رہا کہ امریکا ، ان کی اجازت سے افغان طالبان سے مذاکرات کررہا ہے ۔ اب کابل انتظامیہ بڑھتی پیش رفت پر اپنے تاریک مستقبل سے خوف زدہ نظر آتی ہے۔
افغان صدر کے خصوصی ایلچی نے جہاں پاکستان کے ساتھ اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں وہاں سیاسی قوم پرست جماعت کے سربراہوں سے بھی ملاقاتیں کیں۔ پاکستان کے علاوہ بھارت اور ایران میں بھی وفود بھیجے اور سعودی عرب سمیت عرب ممالک کے ذریعے افغان طالبان پر دبائو دالنے کی کوشش کی کہ وہ براہ راست مذاکرات میں کابل انتظامیہ کو بھی شامل کریں ۔ یعنی امریکا ، ان مذاکرات سے ہٹ جائے گا اور پھر افغان طالبان جو کابل انتظامیہ کو امریکا کی کٹھ پتلی حکومت سمجھتی ہے ، افغان طالبان و دیگر گروپ قانونی حیثیت کو تسلیم کرلیں گے ۔ جس سے افغان طالبان کے موقف کو شدید نقصان پہنچے گا ۔
عالمی میڈیا میں تھنک ٹینک رانڈ(RAND)کارپوریشن کی جانب سے مبینہ طور پر49صفحات پر مشتمل ایک ایسی دستاویز کا ذکر سامنے آیا ہے جس کے مطابق امریکا 18 مہینے میں انخلا ء کا منصوبہ بنارہا ہے ۔ 49صفحات پر مبنی دستاویز کو افغان تنازع کا جامع حل کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں مفاہمتی عمل کی کامیابی کے بعدحتمی امن معاہدے سے متعلق تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ مسودے میں کہا گیا ہے کہ” جنگ مکمل بند کی جائے گی، افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہو گی، (افغان)طالبان کو القاعدہ سمیت تمام مبینہ دہشت گرد گروپوں سے اظہار لاتعلقی کرنا ہوگا،ر18ماہ کی عبوری مدت میں امریکہ اور نیٹو افغانستان میں اپنا مشن مکمل کر کے3مراحل میں واپس جائیں گے”۔اب تک افغان طالبان کے امریکا کے ساتھ جتنے بھی مذاکراتی دور ہوئے ہیں اس میں پہلے ہی اس بات کی یقین دہانی کرائی جاچکی تھی کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف نہ پہلے استعمال کی ہے اور نہ آئندہ کریں گے ۔
جنگ بندی کے حوالے سے افغان طالبان نے شرط عاید کی ہوئی ہے کہ جنگ بندی اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک غیر ملکی افواج افغانستان کی سرزمین سے مکمل انخلا ء نہیں کرتیں۔اس کے ٹائم فریم پر حتمی بات چیت کے لئے کابل انتظامیہ نے سعودی عرب میں مذاکرات کے اہم دور کے لئے زور دیا ۔ لیکن افغان طالبان نے قطر کے سیاسی دفتر کے علاوہ دبائو پر کسی دوسرے اسلامی ملک میں مذاکرات سے اس لئے انکار کردیا کیونکہ امارات اسلامیہ، کابل انتظامیہ کو قانونی حیثیت نہیں دینا چاہتی۔
مبینہ مسودے میں امریکہ کا سیاسی تعاون جاری رکھنے اور افغان جماعتوں کو بین الاقوامی برادری کو دعوت دینے کی تجویز دی گئی ہے کہ وہ ایک محدود، چھوٹی افغانستان سپورٹنگ ٹیم تشکیل دیں جو بالخصوص انسداد دہشتگردی پر توجہ دے گی۔ دستاویز کے مطابق” افغانستان میں نئے سیاسی انتظامات کئے جائیں گے،جن میں18ماہ کی عبوری مدت کے دوران نئے آئین کی تشکیل شامل ہے، عبوری حکومت چیئر مین اور کئی وائس چیئرمینز پر مشتمل ہو گی۔ مستقبل کی حکومت کے ماڈل میں صدارتی اختیارات میں کمی اور انہیں متوازن بنانے کی تجویز رکھی گئی ہے۔مسودے میں کہا گیا ہے کہ افغان فوج، انٹیلی جنس اور سرحدی پولیس نیشنل کمانڈ کے ماتحت کام کریں،جبکہ پولیس کو مقامی سطح پر چلا یا جائے گا”۔افغان طالبان عبوری سیٹ اپ کو یکسر مسترد کرچکی ہے اور کسی عبوری سیٹ اپ کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں ہے ۔
افغان طالبان کا افغانستان کے 50فیصد سے زائد حصے پرعمل داری رکھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے انتظام و انصرام کو کابل انتظامیہ سے بخوبی سمجھتے ہیں اس لئے ان معاملات میں کسی کی شراکت داری نہیں چاہتے ۔ نیز افغان طالبان ، شوریٰ سسٹم پر یقین رکھتے ہیں ، وہ مغربی نظام کے مخالف ہیں اس لئے کابل انتظامیہ اورامریکا کے لئے یہ دشواری ہے کہ وہ جمہوریت کے نام پر افغانستان میں سیاسی طور پر کمزور حکومت پر اپنا اثر رسوخ قائم نہیں رکھ سکیں گی ۔ تاہم افغان طالبان اس بات کی ضمانت دے چکے ہیں کہ پڑوسی ممالک سمیت تمام ممالک سے سفارتی تعلقات میں توازن رکھیں گے اور تمام مفاد عامہ کے معاہدوں کی پاسداری کو یقینی بنائیں گے ۔
امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروس کمیٹی کی رکن اور 2020میں ٹرمپ کی متوقع مخالف صدارتی امیدوار سینیٹر ایلزبتھ وارن نے کہا ہے کہ” وہ شام اور افغانستان میں فوجی سرگرمیوں کے بجائے امریکی فوج کے انخلا کی حمایت کریں گی۔امریکی نشریاتی ادارے ‘ایم ایس این بی سی’ کو انٹرویو میں ایلزبتھ وارن نے کہا ”یہ درست فیصلہ ہے کہ ہم شام سے اپنی فوج کو واپس بلالیں اور اس کے ساتھ افغانستان سے بھی فوج کو واپس بلانا صحیح فیصلہ ہے”۔واشنگٹن میں مبصرین کا کہنا تھا کہ” افغان جنگ، امریکہ میں اتنی غیر مقبول ہوچکی ہے کہ کوئی امریکی سیاستدان افغانستان میں فوجیں رکھنے کی حمایت نہیں کرے گا اور رواں برس جب صدارتی مہم کا آغاز ہوگا تو افغانستان سے فوج کے انخلا کا مطالبہ اور شدت سے سامنے آئے گا”۔
امریکی صدر کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد ، ایلس ویلز کا دورہ پاکستان شیڈول کے مطابق نہیں ہوا اور تین بار شیڈول میں تبدیلی کی گئی ۔ جس کی بنیادی وجہ کابل انتظامیہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں شراکت کے مطالبے کو شامل کرانا تھا ۔ کابل میں امریکی سفارت خانے میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت میں زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ‘اگر(افغان) طالبان بات کرنا چاہتے ہیں تو ہم اُن سے بات کریں گے لیکن اگر وہ لڑائی چاہتے ہیں تو ہم لڑیں گے، لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ وہ امن کی راہ چنیں گے’انھوں نے کہا کہ ‘اگر(افغان) طالبان مذاکرات کے بجائے لڑائی کا انتخاب کرتے ہیں تو امریکہ افغان عوام اور افغان حکومت کا ساتھ دے گا۔ تاہم افغان طالبان کے سخت موقف کے بعد بیان دہا کہ ” امریکا جنگ کے بجائے امن چاہتا ہے ”ہمیں اتحادی کی حیثیت سے افغان سکیورٹی فورسز کو مدد کرنے پر فخر ہے۔’ اب زلمے خیل زاد نے کابل انتظامیہ کے مطالبے کو شدت کے ساتھ دوہراتے ہوئے کہا ہے کہ” امن کے لیے طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات کرنا ہوں گے”۔اب اس مطالبے سے فی الوقت دستبردار ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب مغربی ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں بھی شائع کروائی جا رہی ہیں کہ پاکستان نے افغان طالبان کے ایک اہم رہنما کو گرفتار و پھر رہا کیاہے تاکہ کابل انتظامیہ کے ساتھ افغان طالبان مذاکرات کے لئے دبائو بڑھائیں ۔ اوّل تو ایسی کسی خبر کی باقاعدہ تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ دوئم پاکستان ایسا عمل کرنے میں عجلت کا مظاہرہ نہیں کرسکتا ۔ کیونکہ افغان طالبان کا جھکائو پاکستان کی جانب کم ہوتا جارہا ہے ۔ ایسا کوئی عمل رہا سہا اعتماد بھی کھو دے گا ۔ جس کا نقصان امریکا و کابل انتظامیہ کو ہی ہوگا ۔ افغان طالبان کے کئی سینئر رہنما برسوں برس اسیررہ چکے ہیں۔ اُن رہنمائوں کی گرفتاریوں سے افغان طالبان کے موقف میں تبدیلی نہ آسکی تو انہیں اس طرح دبائو میں لانے کی کوشش بے سود ہی رہے گی ۔
بلاشبہ پاکستان یہ ضرور چاہتا ہے کہ افغانستان میں جلد از جلد امن کے قیام کی راہ ہموار ہو۔ اس کے لئے پاکستان نے اپنی محدود حد تک کوشش بھی کی ، پاکستان کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کی اصولی حمایت کرتا ہے ، لیکن 18 برسوں کے شدید ترین اختلافات کو 18ہفتے اور مہینے میں حل نہیں کیا جاسکتا ۔ کابل انتظامیہ کو بھی صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ جب امریکا مذاکرات کررہا ہے تو اس کا مطلب کابل انتظامیہ ہی مذاکرات کررہی ہے۔ کابل انتظامیہ امریکی حکومت کے زیر اختیار ہے ۔ عجلت پسندی سے مذاکراتی دور میں تعطل پیدا ہوچکا ہے۔
زلمے خلیل زاد بھی کمزور اور متنازع بنتے جارہے ہیں ۔ افغان طالبان ، پاکستان ، چین نے زلمے خلیل زاد پر اعتماد ظاہر کیا ہے ۔ توقع ہے کہ زلمے خلیل زاد افغانستان میں امن عمل کے لئے رخنہ ڈالنے والے عناصر کو بھی صبر کا مشورہ دیں اور براہ راست مذاکرات کے عمل میںتعطل کو ختم کروائیں ۔زلمے خلیل زاد کابل انتظامیہ و بھارتی دبائو سے باہر نکلیں اور موثر کردار ادا کریں۔کیونکہ افغان امن عمل ایک ایسے منطقی مرحلے میں داخل ہورہا ہے جس میں رخنہ پیدا ہونے سے امن مذاکرات کے تمام ثمرات زائل ہوجائیں گے۔جو امریکا کے لئے شرمندگی کا سبب بنے گا ۔فیصلہ کن اور دانشمندانہ نیا سیکورٹی معاہدہ طے پانے سے خطے میں امن کا نیا دور شروع ہونے کی امید ہے۔