ممبئی (جیوڈیسک) انڈیا کے معروف موسیقار اے آر رحمان ’اوریجنل‘ موسیقی تخلیق کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور دوسروں سے متاثر ہو کر موسیقی کمپوز نہیں کرنا چاہتے۔
لندن میں کا کہنا تھا کہ موسیقی آپ کے اندر کی آواز ہوتی ہے۔ جس چیز کو آپ اپنے اندر محسوس کرتے ہیں وہ آپ کی موسیقی پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’جب میں صوفی موسیقی تخلیق کرتا ہوں یا مجھے صوفیانہ موسیقی کمپوز کرنے کے لیے کہا جاتا ہے تب میں اوریجنل موسیقی تخلیق کرنا چاہتا ہوں، کسی دوسرے سے متاثر ہو کر نہیں۔‘
ان کا کہنا ہے: ’میں صرف فلموں کے لیے ہی موسیقی نہیں دیتا بلکہ میری میوزک لوگوں کی زندگی کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس لیے میں بھجن گاؤں یا صوفیانہ موسیقی ان باتوں کا خیال ضرور رکھتا ہوں۔ یہ ایک یقین ہے جو سب کو آپس میں مربوط کرتا ہے۔ یہ واقعی میں ایک مقدس چیز ہے، اس لیے موسیقی تخلیق کرتے وقت میں اس کا خیال رکھتا ہوں۔‘
رحمان کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ انھیں رات کے وقت نئی دھنوں کا خیال آتا ہے۔
فلم سلم ڈاگ ملینیئر کے ایک نغمے ’جے ہو‘ کے لیے اے آر رحمن کو آسکر ایوارڈ مل چکا ہے اس بارے میں رحمان کہتے ہیں کہ وہ جب بچے تھے تو دن میں وہ سٹوڈیو میں دوسروں کے لیے کام کرتے تھے اور رات میں اپنے لیے اور جب انہوں نے دوسروں کے لیے کام کرنا بند کر دیا تب بھی رات ہی ان کے کام کرنے کا وقت بنا رہا۔
وہ رات میں کام کرنے کی ایک اور وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں: ’چونکہ رات میں آخری نماز بارہ بجے تک پڑھنی ہوتی ہے اور پہلی نماز صبح چار بجے۔ بارہ بجے سو کر صبح چار بجے اٹھنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے بھی رات میں کام کرتا ہوں۔‘
اے آر رحمان اپنے والد، نوشاد، ایس ڈی برمن، آر ڈی برمن، مدن موہن، ایم ایس وشوناتھن، کیوی مہادیو اور جان ولیمز کو اپنا پسندیدہ موسیقار مانتے ہیں۔ وہ پاکستانی فنکاروں میں نصرت فتح علی خان اور مہدی حسن کو اپنا پسندیدہ آرٹسٹ بتاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر انڈیا اور پاکستان کے درمیان سارے سیاسی اختلافات ختم ہو جاتے ہیں اور امن قائم ہوتا ہے تو وہ پاکستان جا کر پرفارم کرنا پسند کریں گے۔کسی موسیقار سے متاثر ہونے کی بات پر وہ کہتے ہیں کہ یہ اچھی بات بھی ہے اور بری بات بھی۔
وہ کہتے ہیں: ’آپ کسی موسیقار کی لگن اور موسیقی کی گہرائی سے تو سیکھ سکتے ہیں۔ اس سے رغبت بھی حاصل کرسکتے ہیں لیکن موسیقی سے نہیں کیونکہ اس سے آپ کی اپنی شناخت کھو جاتی ہے۔‘ فلم سلم ڈاگ ملینیئر کے ایک نغمے ’جے ہو‘ کے لیے اے آر رحمن کو آسکر ایوارڈ مل چکا ہے۔
تو کیا رحمان بھی’’جے ہو‘ کو اب تک کا اپنا سب سے بہترین كمپوزیشن مانتے ہیں؟ اس پر رحمان کا کہنا تھا: ’کبھی کبھی آپ کو موسیقی تخلیق کرنے سے پہلے کسی خاص ثقافت کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ مغربی ثقافت کے حساب سے ’جے ہو‘ ایک مکمل كمپوزیشن ہے۔‘
اس بارے میں وہ مزید کہتے ہیں کہ فلم کے ڈائریکٹر کے اوپر فلم کو آگے بڑھانے اور سامعین کے ناپسند کا خیال رکھنے کی ذمہ داری ہوتی ہے اس لیے کئی بار وہ جو کہتے ہیں اسے آنکھ بند کر کے ماننا پڑتا ہے۔ اس لیے اس معاملے میں میں نے ڈینی بوئیل پر اعتماد کیا۔