تحریر : سہیل فراز کہتے ہیں کہ محبت ایک ایسا جادو ہے جس کا اثر سر چڑھ کر بولتا ہے۔محبت کا کوئی محدود دائرہ کار نہیں ہے یہ ایک وسیع الجہت عمل ہے۔یہی محبت گھروں میں ہو تو گھر جنت نظیر بن جاتے ہیں۔اور اگر یہی محبت وطن کے لیئے ہو تو اسے جذبہ حب الوطنء کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔جذبہ حب الوطنی سے وطن کا دفاع بھی نا قابل تسخیر ہو جاتا ہے۔پاکستان مملکت خداداداخوت و محبت سے لبریز سر زمین ہے۔ اس سر زمین کے دفاع کے لیئے کمر بستہ افوج پاکستان کے جوان محض جذبہ حب الوطنی سے سر شار ہو کر بر سر پیکار ہیں۔اسی طرح حکمران طبقہ کہلانے والے افراد بھی اس جذبے کے امین ہوتے ہیں ہمیں کسی کی حب الوطنی پر طعن وتشنیع یا شک کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ کسی کو جانچنے کے لیئے اسکی پالیسیاں اس چیز کی و اضح طور پر عکاسی کرتی ہیں۔ جہاں ملکی دفاع میں جذبہ حب الوطنی کار فرما ہوتا ہے وہیں پر حکومتی امور ، انتظام و انصرام کے لیئے بھی یہی جذبہ نا گزیر ہوتا ہے۔
دوسری چیز عزت احترام ، آئیں کی بالا دستی اور برداشت ہے۔جو کہ اس وقت مجموعی طور پر مفقود ہوچکا ہے۔فوج، پولیس، حکومتی اداروں میں اگر چہ عزت احترام، برداشت ، انصاف، آئین کی بالادستی کا وجود کسی حد تک باقی ہے مگر آج کل کے انصاف اور تبدیلی کے نام لیوا لیڈرز نے ملکی سیاست میں گالم گلوچ، بد تمیزی، غلط رویئے، بد کلامی کو خوب رواج دے دیا ہے جو کہ کسی صورت ہمارے معاشرے کے لیئے قابل برداشت نہیں نہ ہی یہ طرز عمل ہمارے معاشرے کا حصہ ہے ۔تبدیلی کے نعرے لگانے والوں کو اپنا یہ رویہ تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
دھرنوں، جلسوں میں اختلاط مرد وزن کے جو افسوس اور شرمناک واقعات سامنے ان کا تذ کرہ بھی مناسب نہیں وہ بھی ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف ایک الگ باب ہے ۔بہر کیف ملکی امور میں اونچ نیچ ، سیاسی اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں مگر یہ طرز عمل بالکل درست نہیں ہے کہ جب معاملات عدالت میں پہنچ چکے ہیں تو روز پریس کانفرنسوں میں اپنی بیان بازی اور اپنے فیصلے سنانے کی بجائے آئین کی بالا دستی کو تسلیم کرتے ہوئے صبر وتحمل سے کام لیناچاہیئے۔عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کر نا چاہیئے بجائے واویلا کرنے کے جس پارٹی کو گذشتہ انتخابات میں محض ایک صوبے کی حکومت ملی ہے وہ اس میں کارکردگی دکھا کر آئندہ مزید کامیابیوں کے امکانات پید اکریں کیونکہ ملک انتشار کا کسی صورت متحمل نہیں ہے ۔ اسلیئے گالم گلوچ، عدم برداشت ، طوفان بد تمیزی کی بجائے آئین کی بالا دستی کو تسلیم کرتے ہوئے عدالتی فیصلے کا انتظار کیا جائے۔
ملک میں سیاسی عدم برداشت کے ساتھ مذہبی عدم برداشت کا عنصر بھی موجود ہے اگر چہ تمام تر مذہبی جماعتیں ، تمام مسالک اتحاد کی فضا برقرار رکھے ہوئے ہیں اسکے باوجود کہیں پر کبھی کبھار چند لوگ عدم بداشت کے سبب فروعی اختلافات کے نام پر خود بھی غلط فہمی کا شکا ر ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس میں مبتلا کرتے ہیں جس سے پر امن فضا کو خراب کیا جاتا ہے اس عمل کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔اسی لیئے جس طرح ملک میں سیاسی طور پر بر داشت کی ضرورت ہے اسی طرح مذہبی رواداری بھی ناگزیر ہے۔یہ خوش آئند امر ہے کہ ہمارے مذہبی رہنما انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں ملک میں مذہبی اتحاد ، اتفاق ، رواداری کو فروغ دینے میں سینیٹر علامہ پروفیسر ساجد میر، مولانا فضل الرحمن ، لیاقت بلوچ، حافظ محمد سعید، مولانا ابوالخیر، مولاناانس نورانی ، علامہ ساجد نقوی اور دیگر کا کردار قابل تحسین ہے۔ اس ضمن میں میاں محمد نواز شریف کی ہدایت پر مذہبی رواداری وہم آہنگی کے لیئے مرکزی سطح پر قائم قومی امن کمیٹی برائے بین المذاہب ہم آہنگی کا کردار بھی انتہائی موثر اور اہمیت کا حامل ہے۔حال ہی میں اس حوالے سے ملتان ریجن قومی امن کمیٹی کی ذمہ داری مجھ راقم کو سونپی گئی ہے۔جس کے تحت ریجن بھر کے ممتاز جید نمائندہ علماء کرام ، مذہبی رہنماوں، اقلیتی رہنماوں ونمائندوں کا مثبت ریسپانس خوش آئند امر ہے کہ علما ء کرام اور آر پی او ملتان جناب سلطان اعظم تیموری صاحب کے توسط سے یہ بات بخوبی طور پر مشاہدے میں آئی ہے کہ علماء کرام سیکیورٹی اداروں اور پولیس ، دیگر محکموں کے ساتھ ممد ومعاون اور شانہ بشانہ ہیں۔
یقیناً اس کا کریڈٹ آر پی او صاحب اور علما ء کرام کو جاتا ہے۔یہ صورتحال تسلی بخش ہے کہ اب نا دیدہ قوتیں، ملک دشمن عناصر ہمیں مذہبی انتہا پسندی کے نام پر منتشر نہیں کر سکتے ۔ بہر کیف ملکی حالات کا تقاضا ہے کہ رواداری کو فروغ دیا جائے ۔ اور پرمن فضا کو قائم کیا جائے۔ اس کے لیئے ہم سب کو برداشت رواداری مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔اسی سے امن قائم ہوگا اور وہ وقت دور نہیں کہ جب پر امن پاکستان ہی مستحکم پاکستان ہو گا انشاء اللہ۔
خدا کرے کہ میری ارض پاک پہ اترے وہ فصل گل جسے کبھی اندیشہ زوال نہ ہو