لاکھوں انسانی جانوں کو چیونٹیوں کی طرح اپنے پیروں تلے کچلنے کے بعد آخر کار طاقت کے نشے میں مست ہاتھیوں کو مذاکرات کی طرف آنا ہی پڑا، دونوں اطراف کے ہاتھی یہ جنگ جیتنے کے دعویدار ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ قدرت نے دونوں کا غرور خاک میں ملا دیا ہے۔ 19 جون 2013ء کے دن دنیا بھر کے اخبارات نے یہ خبر اپنی شاہ سرخیوں میں شائع کی کہ طالبان نے قطر میں اپنا دفتر کھول لیا۔
امریکہ براہ راست مذاکرات کرے گا، افغان صدر حامد کرزئی بھی مذاکرات کے لئے اعلیٰ سطح کا حکومتی وفد قطر بھیجیں گے۔ قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کا باضابطہ افتتاح کیا گیا، امریکی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات آئندہ ہفتے شروع کیے جائیں گے۔ ترجمان طالبان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ دنیا کے ساتھ امن مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانا ہے۔ امریکن حکومت، افغان حکومت اور طالبان قیادت کا مذاکرات کی میز پر اکٹھے بیٹھنا یقینا مثبت اقدام ہے۔
لیکن پاکستان میں امریکی ڈرون حملے اور طالبان کی پرتشدد کارروائیاں دونوں قوتوں کامنہ چڑا رہی ہیں۔ پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کے ساتھ ساتھ خودکش اور ٹارگٹ حملے قطر میں ہونے والے امن مذاکرات کو متاثر کر سکتے ہیں۔ لہٰذا پاکستانی حکومت کو بھی فوری طور پر پاک، امریکہ اور طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی راہ ہموار کرنی چاہئے تاکہ دونوں اطراف امن قائم کیا جا سکے۔
امریکہ کی طرف سے طالبان کو مضبوط قوت کے طور پر قبول کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ جب تک مخالفین کی قوت کو تسلیم نہ کیا جائے امن کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی۔ ترجمان طالبان کا بیان کہ دنیا میں امن مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس بات کی ترجمانی کرتا ہے کہ طالبان اُس قدر تشدد پسند نہیں ہیں جتنا کہ بتایا جاتا ہے۔ قطر میں طالبان کا باقائدہ دفتر اور امریکی حکومت کی طرف سے باضابطہ مذاکرات کا اعلان اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کرزئی حکومت اور امریکہ کی طالبان کے ساتھ صلح صفائی ہو چکی ہے۔
U.S.
آئندہ ہونے والے مذاکرات کا مقصد صلح کے اس عمل کوجاری رکھتے ہوئے پائیدار امن کا قیام ہے۔ اگر امریکہ طالبا ن کے ساتھ مذاکرات کر سکتا ہے تو پھر پاکستان کیوں نہیں کرسکتا؟جب حکمران قوم کے وسیع تر مفاد میں سودپر قرض حاصل کرنے کے لئے آئی ایم ایف کے تلوے چاٹ سکتے ہیں۔ زکواة و صدقات مانگتے شرم نہیں آتی تو ملک میں قیام امن کی خاطر مذاکرات کی میز پر کیوں نہیں بیٹھ سکتے ؟آخر وہ کون سی طاقت ہے جو امریکہ، طالبان مذاکرات کے باوجود پاکستان کو مذاکرات کے عمل سے دور کررہی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے نائن الیون کے بعد شروع ہونے والی امریکہ، افغان جنگ نے پرامن پاکستان کو دہشتگردی کی نظر کردیا اور اب جبکہ جنگی عزائم رکھنے والے مذاکرات کے ذریعے سالوں جاری رہنے والی جنگ سے ہاتھ کھینچ رہے ہیں تو پاکستان کو بھی پُرامن مذاکرات کی طرف بڑھنا چاہئے۔
میں ایک عام آدمی ہوں اورمیرے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات اورخیالات بھی انتہائی عام حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ دنیا میں امن سے زیادہ قیمتی کوئی اثاثہ نہیں ہو سکتا اور امن کو صرف اور صرف مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ہی قائم کیا جا سکتا ہے۔(بشکریہ پی ایل آئی)
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر imtiazali470@gmail.com. 03154174470