امن پسندوں کی دہشت گردی

Terrorism

Terrorism

تحریر: محمد فاروق خان
وہ 1950ء میں پیدا ہوا۔وقت آنے پر ہر بچے کی طرح اسے اسکول بھیجا گیا لیکن اسے اسکول میںزیادہ دلچسپی نہیں تھی۔سولہ برس کی عمر میں اس نے پڑھائی کو ایک طرف رکھا اور اسکو جل جانا چھوڑ دیا اس نے اپنے ایک دوست کے ساتھ ملکر ”اسٹوڈنٹ” کے نام سے ایک میگزین نکالا۔یہ اس کا سب سے پہلا بزنس وینچر تھا ۔1970ء میں اس نے ورجن گروپ (vergin Group)کی بنیاد رکھی جس کے تحت وہ بز نس کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بن گیا۔ورجن اٹلا نٹک ،ورجن موبائل ،ورجن ٹرنیز،اور ورجن ریکارڈ اسکی کامیابیوں کامنہ بولتا ثبوت ہیں ،اس کا نیا منصوبہ خلائی سیاحتی کمپنی بنانا ہے ۔جس کو ورجن گیلاکٹک(Vergin Galaetie)کا نام دیا گیا ہے مستقبل میں یہ کمپنی سیاحوں کو خلاء کی سیر کرائے گی۔ معروف میگزین فورسز (Forbes)کا کہنا ہے کہ و ہ2014کا برطاینہ کا ساتوں امیر ترین آدمی تھا ۔دنیا اسکو رچر ڈبر نیس بیز (Richard Branson)کے نا م سے جانتی ہے ۔

اگر رچرڈبرینسن کی کامیابیوں پر ایک نظر ڈالیں تو درج ذیل خوبیوں کو اسکی تمام کامیابیوں کے پیچھے کار فرما پاتے ہیں۔ ہمیشہ اپنے خوابوں کے تعاقب میں رہو۔ ہر لمحے انکی تعبیر ڈھونڈنے میں لگے رہو۔اورایسے کام کرو جن میں تمہاری دلچسپی ہو۔جن کو تم دیوانوں کی طرح کر سکو اور جن کو کرتے ہوئے تمہیں کبھی تھکن کا احساس نہ ہو ہم میں بہت سے لوگ جب کسی کام کا انتخاب کرتے ہیں تو سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس کو پہلے کسی نے کیا ہے یا نہیں ،یا پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اس سے پیسے کتنے ملیں گے جبکہ رچرڈڈبرینسن جیسے لوگ کام کو ایک ایڈونچر کے طور پر لیتے ہیں اوراس سے لطف اندوزہوتے ہیں جس میدان میں قدم رکھتے ہیں اس میں ایک مثبت اور خوشگوار تبدیلی لیکر آتے ہیں جس سے نہ صرف اس کام سے وابستہ لوگوں کو فائدہ پہنچتاہے بلکہ تمام نوع انسانی کے لیے وہ سودمند ہوتا ہے۔

رچرڈ برینسن ہو یا بل گیسٹ انکی کامیابیوں کے پیچھے انکی محنت صلاحیت اور قسمت کے علاوہ آگے بڑھنے کو موقع فراہم کرنے والا کار پوریٹ کلچر ،سوچ،اور تخلیقی آزادی نے انہیں عالمی ریکارڈ ہولڈر بنانے میں سپو ٹ کیا ۔صرف امریکی یا برطانوی مائوں کو رچرڈ برینسن اور بل گیٹس جننے کاحق نہیں بلکہ ساڑھے انیس کروڑ مربع کلومیٹر پر پھیلی زمین کے ہر خطے اور ہرملک کی ہر ماں کو حق حاصل ہے فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں افکار پر پہرے نہیں ان کے آگے بڑھنے اور عالمی ریکارڈ قائم کرنے کے رستوں میں پزیرائی اور ستائش نے امدادی کمیپ لگائے ہوئے ہیں ،وہاں گمنام لوگوں کو عالمی شہرت کے وکٹری اسٹینڈ پرکھڑے ہونے کا یکساں مواقع میسر ہیں ،وہا ں ارتقائی مراحل طے کرنے والوں کے پائوں میں میخیں نہیں گاڑھی جاتیں ،انہیں عبرت کانشان نہیں بنایا جاتا۔اختیار والے انکے رستے میں حائل ہو کر یہ سوال نہیں کرتے کہ جو تم کرنے جارہے ہو اس سے انہیں کیا ملے گا۔

پاکستان کئی دہائیوں سے دہشت گردی سے زور آزما ہے ۔سیکورٹی فورسز اپنی تماتر صلاحتیں اور وسائل بروئے کار لارہی ہیں ، اور بہت جلد آخری دہشت گردبھی انکی زد میں ہوگا ۔سیکورٹی فورسزے کے علاوہ ہمارے پاس سماجی تنظمیوں کی صورت میں سوشل پاور موجود ہے ۔قیام امن کے لیے کام کرنے والے حکومتی ادارے موجود ہیں ،ہمارے پاس یونیورسٹیز موجود ہیں جوقیام امن کے لیے بھرپور کرادار ادا کر سکتی ہیں پاکستان کو دنیا کے لیے آدھے سر کا درد کہا گیا لیکن ملکی سطح پر کوئی قو می پراجیکٹ منظر عام پر نہ آسکا جو پاکستان کو امن والے ملک کی پہچان دے سکتا جس سے امن سے ہماری اجتماعی بے حسی سامنے آتی ہے۔

داخلی امن ہی بین الاقوامی سطح پر کسی ملک کو پر امن ریاست ہونے کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے کسی بھی امن سے بے حس معاشرے میں امن کے سفیر نایا ب ہوجائیں ۔یاپس منظر میں چلے جائیں تو دہشت گرد پیش منظر پر آجاتے ہیں ۔پاکستان میں داخلی امن کے لیے لازم ہے کہ ایک طرف تو ملک کو دہشت گردی سے پاک کیاجائے تو دوسری طرف پرامن پاکستان کے سفیروں کو قومی دھارے میں لاکر پائیدار امن کے لیے پر جوش ،متحرک اور منظم کیاجائے۔نوجوانوں کی صلاحیتوں کو قیام امن کے لیے استعمال میں لانے کی ضرورت ہے ۔پاکستان نوجوان ملکی صورتحال پر متفکر ہیں قیام امن کے لیے کردار ادا کرنے کے خواہش مند ہیں ،وہ رہنمائی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ، پاکستانی یوتھ کو آگے بڑھ کر پرامن پاکستان کے سفیروں کاورلڈ ریکارڈقائم کرنا چاہیے تاکہ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ امن کے سفیروں والے ملک کے طور پر پہچانا جائے ،امن کے سفیروں کے ورلڈ ریکارڈ سے یقیناپاکستان کی عالمی ساکھ میں اضافہ ہوگا اور پاکستان کے اندر نوجوان مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب ہوں گے ،پاکستانی نوجوانوں میں بڑا ٹیلنٹ اور وطن سے بے پناہ محبت ہے ۔انہیں قیام امن کیلیے باصلاحیت ہنر مند بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ایک ایسا معاشرہ میسر آسکے جس میں تما م افراد اپنی سیاسی ،مذہبی اور ثقافتی وابستگی کے مطابق آزادانہ پرامن اور محفوظ زندگی بسر کر سکیں۔

کوئی نیا تجربہ کوئی نیا رستہ تلاشنے سے ہم گھبراتے ہیں۔شاید ہم ناکامیوں سے سیکھنے کا ہنر حاصل نہیں کرنا چاہتے ۔ ،ناکامی جرم نہیں بلکہ ناکامی خوف کے کچھ نہ کرنا جرم ہوتاہے ،کچھ نہ کرنے کا جرم اجتماعی اور انفرادی سطح پربھی دیکھا جا سکتا ہے اس تناظر میں دہشت گردی کا سامنا کرنے والے میں اگر قیام امن کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر کوئی کام نہ ہورہا ہو تو اس جرم کی نوعیت انتہائی خطرناکہوجاتی ہے ، اس صورتحال کو امن پسندوں کی دہشت گردی بھی کہا جاسکتا ہے کو امن کی خواہش تو رکھتے ہیں ،لیکن عملی طور پر کچھ نہ کرنے کاجرم کررہے ہوتے ہیں۔

M.Farooq Khan

M.Farooq Khan

تحریر: محمد فاروق خان