تحریر : علی عبداللہ کہتے ہیں کسی چرواہے نے دیکھا کہ ایک بھیڑیا کسی بکری کو اٹھا کر لے گیا ہے تو وہ بولا ,خدا خیر کرے لگتا ہے عمر بن عبدالعزیز رح اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں _ ماضی میں امن و امان کی ایسی صورت مسلم ریاستوں میں عام دیکھنے کو ملتی تھیں _ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان جہاں بھی بطور حاکم گئے انصاف اور امن و امان ان کا شیوہ رہا _ جدید زمانے میں مسلم و غیر مسلم ممالک خصوصاً عرب اور یورپ کے بیشتر حصوں میں امن و امان کی صورتحال نہایت اعلی سطح پر قائم ہے _ کہنے کو عرب عیاش اور یورپی مادر پدر آزاد ہیں مگر اس کے باوجود امن وامان اور انصاف کو مضبوطی سے قائم رکھنا قابل رشک ہے۔
سنہ 2000 کے بعد سے دنیا بھر میں امن و امان کی صورتحال ڈگمگانے لگی ہے اور دہشت گردی, خودکش حملوں, نام نہاد فوجی جنگوں کے ناسور نے جہاں کئی ممالک کو کھوکھلا کیا وہیں انصاف اور امن و امان بھی اس میں کچلے گئے _ دہشت گردی کے آسیب نے گو کہ آدھی سے زیادہ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے لیکن پھر بھی بیشتر ممالک میں امن کی فضا اب بھی قائم ہے _ ان ملکوں کی حکومتی پالیسیوں میں عوام کو مقدم رکھا گیا ہے اور بیرونی و اندرونی سازشوں کا عوام پر زیادہ اثر نہیں ہونے دیا گیا _ عرب ممالک اس میں سر فہرست ہیں۔
Terrorism
پاکستان کا ذکر کریں تو دہشت گردی, ٹارگٹ کلنگ, خودکش حملے اور دیگر وارداتوں کی وجہ سے حالات تشویش ناک ہیں _ عوام اپنا ذہنی سکون اور اعتماد دن بدن کھوتی چلی جا رہی ہے۔عام شہری ملک سے نکلنے کا سوچتے ہیں اور جن کا بس چلتا ہے وہ باہر کے ملکوں میں سیٹل ہو جاتے ہیں _ دیگر بے شمار مسائل کی طرح امن و امن کی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے _ حکومت کبھی فوجی آپریشنز کے نام پر نیم سخت اقدامات کرتی ہے تو کبھی مختلف سیکورٹی پالیسیوں کے نام پر عوام پر پابندیاں عائد کرتی ہے _ جہاں تک فوجی آپریشننز کا تعلق ہے تو دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے یہ قدم اٹھانا ضروری تھا مگر ماضی کے باقی آپریشنز کی طرح لگتا ہے کہ یہ بھی دہشت گردی کی جڑ کاٹنے کی بجائے شاخیں کاٹے گا جو کچھ عرصہ بعد دوبارہ اگ آتی ہیں _ بر وقت انصاف مہیا کرنا اور عام شہریوں کو زدوکوب کرنے کی بجائے اصل مجرموں تک پہنچنا امن کا ضامن ہے ۔۔
حکومت جب تک شہریوں کو مکمل امن و امان کی فضا مہیا نہیں کرے گی تب تک عوام اپنے فرائض کو پورا نہیں کر پائے گی _ بلوچستان کے حالات کو بہتری کی جانب لانا, سی پیک منصوبہ اور گوادر بندرگاہ ایسے عوامل ہیں جو بیرونی طاقتوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہے _ نتیجتاً دشمن ملکی امن و امان کو بگاڑ کی جانب لے جانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے جس کی تازہ مثال حالیہ خودکش دھماکے ہیں _ ان حالات میں حکومت اگر عوام کو امن کی فضا دینے میں سستی کرتی ہے تو یہیں سے ہی لوگ دشمن طاقتوں کے آلہ کار بن سکتے ہیں _ سرحدوں پر جہاں فوج کی ضرورت ہے فوج اپنا کردار بہترین طریقے سے نبھا رہی ہے لیکن اندرونی سطح پر سیکورٹی اداروں کو مخلصانہ کوششوں کی جانب متوجہ ہونا پڑے گا _ پولیس خصوصی طور پر اندرونی حالات سے واقف ہوا کرتی ہے لہٰذا کالی بھیڑوں کو ہٹا کر پولیس کو اپنے فرائض احسن طریقے سے سر انجام دینے ہونگے کیونکہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ امن و امان کے بگاڑ میں کچھ ہاتھ پولیس کا بھی ہوتا ہے _ آجکل ناکوں اور تلاشی کی آڑ میں پولیس کی من مانیاں کرنا اور پیسے وصول کرنے کی شکایات بھی موجود ہیں _ رینجرز اور فوج کو شہروں پر مسلط کرنے سے کچھ عرصے کے لیے دہشت گردی کا بجو پنجرے میں بند ہو جاتا ہے لیکن کچھ عرصے بعد ہی وہ بجو پھر سے کاروائیاں شروع کر دیتا ہے _ ضرب عضب ہو یا آپریشن راہ راست, آپریشن راہ نجات ہو یاپولیس کے سرچ آپریشن,یہ تمام آپریشنز کچھ عرصے کے لیے نہایت کارگر ثابت ہوئے ہیں لیکن عوام شاخوں کا کٹنا نہیں بلکہ دہشت گردی کی جڑ کٹتی ہو دیکھنا چاہتی ہے۔
ہم عوام امن کے پیاسے لوگ ہیں _ اس سے پہلے کہ دشمن طاقتیں ہمیں امن کے دھوکے میں کہیں کسی ایسے سراب کے حوالے کر دیں جس کا پیچھا کرتے کرتے ہم اپنوں کے ہی دشمن ہو جائیں _ حکومت کو چاہیے کہ مستقل بنیادوں پر ایسے منصفانہ اقدامات کرے جن سے عوام کا اعتماد بھی نہ کھوئے اور امن و امان بھی قائم ہو جائے _ سیکورٹی اور آپریشنز کے نام پر عام شہری کا سکون غارت نہ کریں _ حکومت جان سے ہاتھ دھونے والوں کو چند لاکھ تو دے دیتی ہے لیکن چند مزید لاکھ لگا کر جرائم کی مکمل روک تھام نہیں کرتی ۔امن کے پیاسوں کی پیاس عروج پر پہنچ چکی ہے اور اس سے پہلے کہ عوام پیاس سے مجبور ہو کر اپنوں کا خون ہی پینے لگیں انھیں امن و امان کی شکل میں آب حیات بخش دیا جائے۔