تحریر : شیخ خالد ذاہد دنیا میں ابتک ہونے والی جنگوں پرایک طائرانہ نظر ڈالئے تو ہمیں پتہ یہ چلتا ہے کہ امن کے قیام کیلئے طویل طویل جنگیں لڑی گئیں۔ جس میں نا صرف انسان کی قیمیتی جانیں ضائع ہوئیں بلکہ معاشی اعتبار سے قوی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگیں طاقت کے دکھاوے کیلئے لڑی گئیں، کبھی کسی کو نیچا دیکھانے کے لئے لڑی گئیں، کبھی اپنے اپنے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے لڑی گئیں اور اسی طرح کی دیگر وجوہات جنگی جنون کا باعث بنگی رہی ہیں۔
جنگوں میں انسانی “انا” کا قلیدی کردار اداکیا۔ 1939 سے 1945 تک لڑی جانے والی جنگ جسے دنیا دوسری جنگِ عظیم کے نام سے یاد کرتی ہے اور جانتی ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ تھی کے جس میں یورپ، ایشیاء، اور امریکہ جیسے تین بڑے برے آعظم شامل تھے۔ اس جنگ میں تقریباً 30 ممالک بلواسطہ اور بلاواسطہ شامل ہوئے یا دنیا کی تباہی میں اپنا حصہ ڈالا، ایک ارب کے قریب آبادی اس جنگ کی لپیٹ میں آئی۔ یہی وہ جنگ ہے جس میں آمریکہ نے جاپان کے شہروں (ہیروشیما اور ناگاساکی) پر ایٹم بن جیسا موذی ہتھیار استعمال کر کے دنیا کو ایک نئی مصیبت میں مبتلا کردیا۔ اس جنگ میں اہم کردار ادا کرنے والے ممالک میں جرمنی، اٹلی، فرانس، برطانیہ، امریکہ، روس اور جاپان شامل رہے۔ اس جنگ کی ہیبت ناکی اور تباہی سے دنیا کے بہت سے ممالک آج تک نہیں نکل سکے۔ ایٹم بن زدہ شہروں میں آج بھی پیدا ہونے والے بچے کسی نا کسی معذوری کو لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ اس جنگ کے خاتمے پر روس نے سپر پاور کا تاج اپنے سر سجایا۔ اس جنگ کے خاتمے پر “اقوامِ متحدہ” کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے ساتھ ہی آمریکہ اور روس نے ایک سرد جنگ کا آغاز کردیا۔ 1980 سے 1988 تک لڑی جانے والی ایران اور عراق کی جنگ نے بھی خطے میں امن و امان تباہ کیا اور پھر وہیں سے مزید تباہ کاریوں کا ایک سلسلہ شروع کردیا جو آج تک جاری و ساری ہے۔
ضرورت اور اہمیت میں کیا فرق ہوتا ہے؟ ضرورت آپ کو کچھ بھی کرنے پر مجبور کردیتی ہے جبکہ اہمیت انسان کو انسانیت کے درجے پر فائز کرتی ہے۔ یہ بات بہت واضح طور سے محسوس کی جاسکتی ہے کے ہم میں سے اکثریت اپنی اپنی ضروریات کے حصول کیلئے بر سرِروزگار ہیں اور بر سرِ پیکار ہیں۔ ہم دراصل ضرورتوں کے ماتحت ہوئے جا رہے ہیں۔ جیسے جیسے دنیا میں آسائیشیں بڑھ رہی ہیں ضرورتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ انسان اہمیت سے بالا تر ہو کر ان اسائشوں کے حصول کیلئے کمر بستہ ہے۔ یہ معاشرتی عنصر ہے کے آپکو ہر اس شے کی طلب شروع ہوجاتی ہے جو کسی بھی طرح سے آپ کے کام آسکتی ہو اور آپ کی دسترس میں بھی ہو۔ ضرورت اہمیت پر غالب آجاتی ہے۔ لوگ پائیداری چھوڑ کر خوبصورتی اور نزاکت کی طرف راغب نظر آرہے ہیں۔
Arms Race
ضرورت اور اہمیت پر مختصر سی یہ بحث صرف اسلیئے کی گئی کے ہمیں جنگ کی ضرورت اور امن کی اہمیت پر بات کرنا آسان ہوسکے۔ تقریباً دنیا کے تمام ممالک اسلحہ کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقط لیجانے کی کوشش میں ہیں اور ہر ملک کچھ نا کچھ تباہی کا سامان بنا رہا ہے اور دوسرے ممالک کو بیچ رہا ہے۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کے بہت سارے ممالک ایٹمی طاقت بننے کا سامان بھی تیار کر رہے ہوں یا پھر کر چکے ہوں بس کسی ایسے انتظار میں ہوں کے کہیں جنگ لگے اور ہم بھی منظرِ عام پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں۔ دوسری طرف موجودہ سپرپاور امریکہ کی تو معیشت ہی اسلحہ کی خریدو فروخت پر چلتی ہے۔ ضرورت یہ محسوس کی جارہی ہے کے ہر ملک اپنی طاقت دیکھانے کا خواہش مند دیکھائی دیتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کا بنیادی مقصد بھی کچھ اس سے مختلف نہیں تھا۔ اسلحہ کی نمائش کیلئے، اور منظرِ عام پر لانے کیلئے ایک بہت بڑا معرکہ درکار ہے۔ چھوٹی موٹی چپکلشوں پر میڈیا دھیان اتنا ہی دے پاتا ہے کے پڑوسی ملک نے ہمارے سرحدی علاقے پر بھاری مشین گنوں اور توپوں سے حملہ کردیا جسے بہت بہادری کے ساتھ جوابی کاروائی کر کے پسپا کردیا گیا بس کچھ لمحوں کی ایسی خبر چلادی جاتی ہے۔
دنیا کے وہ ممالک جو ترقی یافتہ ہیں اگر جنگ و جدل کی باتیں کریں یا کسی ملک پر چڑھائی کرنے کا سوچیں تو سمجھ آتا ہے کے وہ اپنے ممالک کو اور اپنے لوگوں کو ترقی کی اس معراج پر لے گئے ہیں کے اب وہ دنیا کو طاقت کا چیلنج کر سکتے ہیں۔ ان ممالک نے معاشیت کا چیلنج لیا ہوا ہے۔ وہ اتنی صلاحیت رکھتےہیں کے کسی جنگ میں خود کو الجھا کر بھی اپنے ملک کی بقا اور سالمیت کو قائم رکھ سکیں یا سنبھال سکیں۔ درحقیقت وہ ممالک امن کی اہمیت کو سمجھ چکے ہیں انہوں نے اس امن کے قیام کیلئے بہت ساری قربانی دے رکھی ہیں اور اب اسے برباد نہیں کرنا چاہتے بلکہ اپنے لوگوں کو اپنے ملک میں رہنے والوں کو خوب سے خوب سہولیات فراہم کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ انہیں جنگوں سے ہونے والے نقصانات کا بہت اچھی طرح سے اندازہ ہے. آج دنیا میں ایسے بہت سارے ممالک ہیں جو حالاتِ جنگ میں ہیں جن میں عراق، افغانستان، فلسطین، کشمیر، شام قابلِ ذکر ہیں۔ ان ممالک کے حالات کسی کی سیکھ کیلئے کافی ہیں۔ اگر پھر بھی کوئی جنگ کیلئے تیار ہونا چاہتا ہے تو اسکا علاج پھر بھرپور جنگ ہی ہو سکتی ہے۔
دنیا میں علم کی اور دنیاوی عالموں کی ایسی بھرمار ہے کے اندازہ لگانا مشکل ہے۔ بڑے بڑے معاملہ فہم دانشور، بڑے بڑے مسائل کو سلجھانے والے، بہت بڑے بڑے حالات و وقعات پر نظر رکھنے والے اور اس کے حساب سے اپنی حکومتوں کو مشورہ دینے والے مشیر، بہت بڑے بڑے دفاعی تجریہ نگار اور وقت کی نزاکت کا نبض دیکھ کر حالات کا بتانے والے جہاں دیدہ لوگوں سے دنیا بھری پڑی ہے۔ آج سب بیٹھ کر جنگ کی باتیں کر رہے ہیں ایک دوسرے کو ڈرا دھمکا رہے ہیں۔ کیا یہ لوگ جنگ کی تباہکاریوں سے ناواقف ہیں کیا انہیں نہیں پتہ کے اب جو جنگ ہوگی وہ تیسری جنگِ عظیم ہوگی اور اس جنگ کے بعد کیا بچے گا اور کیا نہیں شائد کچھ بھی نا بچے۔ کیونکہ اب دنیا میں تو کوئی ایسی جگہ بچی نہیں جہاں انسان کی رسائی نا ہو۔ آج دنیا کے تمام ماہرین کہیں بھی ہونے والی جنگ کی تباہ کاریوں کا ایسا تذکرہ کریں کے عوام اپنے حکمرانوں کو ایسے کسی بھی اقدام سے باز رکھنے کیلئے قائل کریں اور ایسا دنیا کے تمام ممالک کے ماہرین میڈیا پر کسی بھی طرح کا اثر رسوخ رکھنے والے۔ جہاں تک بات ڈر یا خوف کی ہے تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑنے والا جب جنگیں ہوتی ہیں پھر چاہے ڈرو یا نا ڈرو مرنا ہی پڑتا ہے۔ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ بننا ہی پڑتا ہے۔
Peace
جتنے لکھنے والے ہیں سب “امن کی اہمیت” کو اجاگر کریں لوگوں کے دل سے میں امن سے محبت کرنے کی ترغیب دیں۔ ہم کسی سے ڈرتے نہیں ہیں نا ہی ہمیں کوئی ڈرا سکتا ہے کیونکہ ہمارا تو ایمان ہے کے جو رات قبر میں لکھی ہے وہ باہر نہیں گزاری جاسکتی۔ مگر دنیا کو انسانیت کا درس بھی ہم نے پڑھایا اور امن و امان سے رہنا سکھایا ہے۔ ان باتوں میں جنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال کا ایسا تذکرہ کریں ایسی تباہیوں کا ذکر کریں کے سب جنگ کے شوقین توبہ توبہ کرتے سنائی دیں اور جنگوں کو روکنے کیلئے سڑکوں پر نکل آئیں۔
ہم نے کبھی اپنی انا جنگی جنون کی بھینٹ نہیں چڑھائی، ہم پر ہمارے پڑوسی ملک نے ہمیشہ جنگ مسلط کی اور ہمارے ہمت اور جذبہ شھادت کے شوق کے آگے گھٹنے ٹیکے۔ وہ آج پھر ایسی ہی ایک غلطی کا مرتکب ہونے کی تیاری کر رہا ہے اسے یہ معلوم ہونا چاہئے کے ہم تو جیتے ہی مرنے کے شوق میں ہیں۔ ہماری امن پسندی اور معاملہ فہمی کو ہماری بذدلی نا سمجھا جائے۔ ہم اپنی فوج کے پیچھے نہیں ساتھ کھڑے ہونگے۔
لیکن یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کے جنگیں امن کیلئے نہیں لڑی جاتیں بلکہ اپنی اپنی بڑائی کی مثالیں قائم کرنے کیلئے لڑی جاتی ہیں۔ یہ حکمرانوں کی انا کی جنگیں ہوتی ہیں ان میں بقاء کا کوئی عنصر نہیں ہوتا۔