زیتون کی شاخ پھر ہاتھوں میں کانپ رہی ہے امن و امان کے کبوتر کے سینہ میں بد اعتمادی اور بے امن و امانی کا خنجر کافی گہرائی تک اُتر گیا ہے اور وہ ماہی بے آب کی طرح پھڑپھڑا رہا ہے۔ فضا میں بندوق لہرانے والے امن و امان کو تہہ و بالا کرنے کے نعرے بلند کر کے ماحول کو جذباتی بنا کر شہر کی پُر سکون فضا میں ماورائے عدالت قتل کی ٹرین رفتار پکڑتی جا رہی ہے۔ اس موقع پر وہ آوازیں دب گئی ہیں کہ دشمنی ، نفرت ، کرنا آخرت کے لئے انتہائی مضر چیز ثابت ہو گا۔ ویسے بھی دنیا میں ایسے کام کئے جائیں کہ جب آخرت اور میدانِ حشر میں جانا پڑے تو اللہ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے شرمندگی محسوس نہ ہو۔
بے گناہوں کا قتلِ عام ویسے بھی نہ صرف قابلِ مذمت اور وحشیانہ ہے بلکہ قابلِ گرفت بھی ہے۔ یہاں تو قصہ یوں ہوتا جا رہا ہے کہ وہ تیر آزمائیں ہم جگر آزمائیں کی حدیں پامال ہوا چاہتی ہیں۔ اس ملک کے عوام کی کیا بات کریں کہ وہ تو حد درجہ متحمل مزاج، برد بار، کم گو اور مصلحت پسند ہیں مگر کب تک؟ آخر کسی نہ کسی دن ان کے پیمانۂ صبر لبریز تو ہونا ہی ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں جناب! اُن گھروں سے پوچھا جائے جن گھروں کے چراغ گُل کر دیئے گئے، جن مائوں کے بیٹے چھین لیئے گئے، جن بہنوں کے بھائی منوں مٹی تلے پہنچا دیئے گئے، یہ بڑا اہم سوال ہے کہ حکمران کب تک صرف شادی کا لڈو ہی کھاتے رہیں گے ، عوام کے لئے کب وہ جاگیں گے، کب عوام سکھ کا سانس لیں گے؟ اس سوال کا جواب ہم بھی تلاش کر رہے ہیں۔
آپ بھی کوشش کریں شاید کہ مل جائے جواب!سرکار کب یہ محسوس کرے گی کہ اس ملک کو اور یہاں بسنے والے عوام کو امن و امان کی گاڑی پر چڑھانا ہے؟کب لوڈ شیڈنگ، گیس بندش، پانی کا بحران، اور دیگر عفریت سے اس ملک کے عوام کو نجات ملے گی؟ کیا یہ تمام عمل ملک، عوام، اور جمہوریت کے لئے مستقبل میں خطرے کی گھنٹی نہیں ہے؟ شاعر کہتا ہے :
یہ جو تم بم لگاتے رہتے ہو سینکڑوں غم لگاتے رہتے ہو زخم بھرتا نہیں کسی صورت کیسا مرہم لگاتے رہتے ہو
کیا آپ کو بھی ان حالات کو دیکھ کر ، سمجھ کر ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ یہاں مضبوط قیادت کا فقدان ہے جو سوائے ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے اور کچھ نہیں کرتے، جبکہ انہیں دہشت گردوں کے نکیل ڈالنے کے معاملے پر ایک پیچ پر آجانا چاہیئے۔کہا یہ جاتا ہے کہ ہمارے یہاں جمہوریت کی بدولت مستحکم، بیدار مغز قیادت موجود ہے تو کیا یہ بیدار مغز قیادت صرف سیاست کرنے کے لئے ہوتا ہے نہ کہ عوام کے سروں پر سایہ مہیا کرنے کے لئے، ہمیں آج بھی ملک کو دنیا کی بڑی معاشی طاقت بنانے کا چیلنج ہے وہ معیشت کساد بازاری کی وجہ سے مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ جو بھی فیصلہ لینا ہے بہت سوچ سمجھ کر اور گرد و پیش کا جائزہ لے کر قومی مفادات کے تحفظ کے ساتھ لینا ہوگا۔ ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی دھیان میں رکھنا ہوگا کہ ملک میں تمام اقسام کی برائیاں جلد از جلد ختم ہو جائیں ۔ ہماری فوج بلا شبہ دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہیں۔ ان کو ساتھ ملا کر دھیرے دھیرے امن کے گہوارے کی طرف جانا ہوگا۔ ہمارا یہ بھی ماننا ہے کہ دیوارِ برلن کی طرح عوام اور حکومت کے بیچ عدم اعتماد کی دیوار گر جائے۔
Pakistan
اتنا تو ضرور کیا جائے کہ امن و امان اور کشیدگی کی گرم ہوائوں کا رُخ امن و امان کی دیوی کی طرف موڑ دیا جائے، ان پر شبنمی قطروں کا چھڑکائو کیا جائے۔ دہشت گردی کے درجہ حرارت کو ختم کیا جائے اور دہشت گردوں کو یہ باور کرایا جائے کہ ایسے واقعات ملک کے لئے نیک شکون نہیں ہے بلکہ بہت مہلک اور انجام کے لحاظ سے بہت بھیانک ہو گا۔ یقینا ہم آزادی کے بعد سے اب تک سخت ترین آزمائشوں کے پل صراط سے بخوبی پار ہوتے رہے ہیں اور انشاء اللہ نیت صاف ہوگی تو اس مرحلہ سے بھی بخوبی نکلنے میں کامیاب ہو نگے۔
مانا کہ نئے وزیراعظم کو اندرون ملک بجلی کی قلت، مسلکی غارت گری، مہنگائی اور دہشت گردی کی لعنت جیسے بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔مگر اب نیا تو ہر وقت نیا نہیں ہوتا ۔ نئی حکومت کو بھی اب ایک سال ہونے کو ہے اس لئے ضروری ہے کہ اب مربوط اور ٹھوس عملی اقدامات کئے جائیں۔مہنگائی کو کنٹرول کیا جائے، لوڈ شیڈنگ پر قابو پایا جائے، پانی کا بحران دور کرنے کے لئے چھوٹے چھوٹے ڈیموں پر خاص توجہ دی جائے ورنہ آنے والے سالوں میں پانی کا بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی جیسی لعنت پر قابو پانا بھی اہم ترین جزو ہیں، غرض کہ یہ تمام ایشوز عوامی ہیں اور عوام ہی ووٹ ڈال کر انہیں تخت پر بٹھاتی ہیں تو کیا یہ جزیاتِ زندگی اس لاچار و بے کس عوام کا ضروری حق نہیں؟ اقبال کی زبان میں ہم کچھ یوں کہہ سکتے ہیں کہ:
جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
آج ہر شخص اپنی غفلت کو دوسرے کی خطا ثابت کرنے ہی کی کوشش میں رہتا ہے ایسے میں کہاں سے وقت آئے کہ وہ کوششیں جن سے عوام کو ہر طرح محفوظ رکھنا ممکن ہو سکے۔ ہر دہشت گردانہ حملے کے بعد مذمت ، الزام اور جوابی الزام کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ، خطا کار رفو چکر ہو جاتا ہے اور دوسرے اسے خطا کار ثابت کرنے ہی میں صلاحیت ضائع کر دیتے ہیں اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو یہ حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ کب کا ختم ہوگیا ہوتا۔ ضرورت اس اس بات کی ہے کہ دیکھا جائے کون کس کام پر مامور ہے اور وہ کیا کرتا ہے اگر ہر شخص اپنی جگہ مستعد رہے اور ایمانداری سے کام کرے تو کسی کے لئے بھی کوئی تخریبی حرکت کرنا ممکن نہ سکے لیکن ہم خود اپنی اصلاح نہ کرکے دوسروں پر الزام تراشی کو ہی حب الوطنی سمجھنے لگے ہیں۔ آج بھی اصلاح کا طریقہ یہی ہے کہ ہمارے ذمہ جو کام ہے اسے ایمانداری ، محنت اور خلوص سے کرنا ہی حب الوطنی سمجھیں بس سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ورنہ کسی پر الزام عائد کرنا غصہ غضب کرنا کسی بھی طرح سود مند نہ ہوگا۔
آج قوم پریشانی کے عالم میں اپنے زندگی کے شب و روز گزار رہے ہیں، ان کی زندگی اجیرن بن گئی ہے، ملک میں ہر چیزجو عوام کی بنیادی کہلاتی ہیں ناپید ہے، ایسے میں عوام کے سروں پر جو آپ تخت نشین ہیں تو یہ آپ ہی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان دکھ تکالیف کا سدِّباب کریں، اختتامِ کلام بس اتنا کہ ؛
تمہی کو بڑھ کر یہاں انقلاب لانا ہے ہر ایک دور پیمبر کہاں سے لائے گا