جاپان (جیوڈیسک) ددسری جنگ عظیم میں امریکہ کی شرکت کے بعد پرل ہاربر پر ہونے والے حملے کو اس سال 75 برس ہو جائیں گے۔
جاپان کی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ وزیر اعظم شینزو ابیے جب اس مہینے کے آخر میں امریکی جزیرے ہوائی کا دورہ کریں گے تو وہ 1941 میں جاپان کی جانب سے پرل ہاربر پر حملے کی معافي نہیں مانگیں گے۔
جاپان کی کابینہ کےچیف سیکرٹری یوشی ہی دے سوگا کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کا دورہ مستقبل کے لیے ان کے عزم اور اس اظہار کے لیے ہے کہ جنگ عظیم جیسا سانحہ دوبارہ کبھی نہ دوہرایا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ جاپان اور امریکہ کے درمیان مفاہمت کا پیغام بھی دینا چاہتے ہیں۔
ددسری جنگ عظیم میں امریکہ کی شرکت کے بعد پرل ہاربر پر ہونے والے حملے کو اس سال 75 برس ہو جائیں گے۔
چھ مہینے پہلے براک أوباما، جاپان کے شہر ہیروشیما کی ایک یادگار پر حاضری دینے والے پہلے امریکی صدر بن گئے تھے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں امریکہ نے 1945 میں جنگ کے خاتمے سے پہلے، اپنا پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔
جاپان کی حکومت ٹرمپ کی نئی امریکی حکومت سے بہتر تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے۔ وزیر أعظم ابیے پہلے ایسے غیرملکی راہنما ہیں جو اس مہینے کے آخر میں منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے نیویارک میں ان سے ملاقات کریں گے۔
مسٹر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران جاپان اور کئی دوسرے ملکوں پر تنقید کرتے رہے ہیں جہاں امریکہ سیکیورٹی کے حوالے سے کردار ادا کرتا ہے اور وہاں اس کے فوجی اڈے موجود ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان ملکوں کو اپنی سیکیورٹی کے زیادہ اخراجات خود اٹھانے چاہییں۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران جب جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کیا تھا تو اس میں 23 سو سے زیادہ امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے اور ایک بڑے جنگی بحری جہاز یو ایس ایس ایری زونا سمیت 20 دوسرے بحری جہازوں اور 164 طیاروں کو یا تو نقصان پہنچا تھا یا وہ تباہ ہو گئے تھے۔
اس حملے کے ساڑھے تین سال کے بعد امریکہ کی جانب سے ہیروشمیا اور ناگا ساکی پر ایٹمی بم گرائے جانے بعد عالمی جنگ کا اختتام ہوا۔ جوہری حملے میں 2 لاکھ 10 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔