پانچ مٹر کے دانے

Peas Grains

Peas Grains

تحریر : وقار احمد اعوان

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک پھلی میں پانچ مٹر کے دانے رہتے تھے، پانچوں طبیعت اور جسامت میں ایک دوسرے سے مختلف تھے، وقت گزرتا گیا اور پانچوں بڑے ہوتے گئے اور پھر وہ دن بھی آیا جب پھلی پَک کر کھل گئی اور پانچوں دانوںنے پہلی مرتبہ سور ج کی کرن دیکھی ۔پانچوں ٹھیک سے دیکھ نہیں پارہے تھے،کیونکہ ایک عرصہ تک وہ پھلی کے اندر اندھیرے میں تھے۔یہ سورج کی کرنیں ہی تھیں جو اُنہیں اُجالا دکھا رہی تھیں۔پانچوں دانے ایک دوسرے سے مخاطب ہوئے۔ان میںسے ایک بولا۔ہمیں تو آج معلوم پڑا کہ ہم دیکھنے میں کیسے ہیں؟ہماری جسامت کیا ہے؟دوسرا بولا ۔کیا ہمیں اپنی زندگی جینی چاہیے۔؟ا س پر سب سے چھوٹا اور ننھا مٹر کا دانہ بولا۔کیوں نہیں،ہمیں بھی جینے کاحق ہے۔

ہمیں ضرور اپنی زندگی جینی ہوگی۔ہمیں دنیا کو اپنی اہمیت بتانا ہوگی ۔اس پر پہلا مٹر کا دانہ بولا۔۔تو دوستو ،ہوجائو تیار ۔اور جب میں ایک دوتین کی آواز لگائوں تو سب نے مل کر باری باری نیچے کودناہے۔۔پھر کیا ،باری باری پانچوں دانے پھلی سے اُچھل کر زمین پر آگرے۔زمین پر گرتے ہی ایک دانہ بولا۔۔دوستو مزا آگیا،دیکھو تو ہم کتنے اوپر تھے،ابھی یہی کچھ چل رہا تھا کہ وہاں سے ایک بچے کا گزر ہوا۔بچے کے ہاتھ میں غلیل تھی۔اس کی نظر جونہی مٹر کے دانوںپر پڑی تو وہ بولا مجھے میری غلیل کے لئے دانے مل گئے۔پھر کیا وہ باری باری ایک دانے کو اٹھاتا اور اُسے غلیل میں ڈال کر دور اُچھالتا دیتا۔

مٹر کے دانے جو زمین پرتھے دیکھتے ہی دیکھتے ہوا سے باتیں کرنے لگے۔ان میں سے ایک بولا ۔واہ مزا آگیا کتنا پیارامنظر ہے۔دوسرا بولا دیکھو دیکھو ،کہیں کسی کو چوٹ نہ لگے۔اور پھر کچھ دیر ہوا میںرہنے کے بعد وہ اِدھر اُدھر زمین پرآ گرے۔البتہ اُن میں سے ایک مٹر کا دانہ زمین پر گرنے کی بجائے ایک گھر کی کھڑکی میں آگرا۔مٹر کادانہ بہت خوش تھا کیونکہ وہ نئی دنیا میں آچکا تھا،مگر دانے کی خوشی وقتی ثابت ہوئی کیونکہ وہ جس کھڑکی میں جاگرا تھا،اس کھڑکی کے کمرے میں بستر پر ایک بیمار بچی پڑی تھی۔بچی جو زور زور سے کھانس رہی تھی،اور بیماری کے باعث اپنی آنکھیں بھی ٹھیک سے کھول نہیں پارہی تھی۔مٹر کا دانہ یہ منظر کھڑکی سے دیکھ رہاتھا ۔اس نے سوچا کیوں نا بچی سے بات کی جائے۔اس نے بچی کو پکارا۔بچی نے اپنی آنکھیں کھولی اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔کون ہے۔۔؟

مٹرکادانہ بولا میں ہوں بہادر لڑکی۔ذراکھڑکی کی جانب دیکھو۔بچی بولی میںبیما رہوں ۔میں ٹھیک سے چل پھر نہیں سکتی اب میں کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتی۔اس پر مٹر کا دانہ بولا ۔کچھ دن انتظار کرو میں تمہارے لئے کچھ کرتاہوں۔بچی نے حیرانی سے پوچھا تم میرے لئے کیا کرسکتے ہو۔۔؟دن گزرتے گئے ،مٹر کے دانے نے گرمی ،سردی ،بارش جیسے حالات برداشت کئے اور آخر کار وہ دن بھی آگیا جب مٹر کے دانے کی جڑ نکل آئی۔اور پھر کچھ دن میں وہ ایک پودے کی شکل اختیار کرگیا۔ایک روز جب بچی کی والدہ کمرے میں داخل ہوئی تو کیا دیکھتی ہے کہ کھڑکی کے ساتھ مٹر کا پوداہے۔وہ بولی یہ مٹر کا پودا کہاں سے آیا۔۔؟یہ سنتے ہی بچی اپنی ماں سے بولی کہ اس نے اپنا وعدہ پوراکرلیا۔بچی کی والدہ حیران تھی کہ میری بیٹی کیا کہنا چاہ رہی ہے۔اس پر بیٹی بولی ۔امی ،امی مٹر کے دانے نے اپنا وعدہ پوراکرلیا اور آج وہ ایک دانے سے پودا بن گیا۔میں بھی ٹھیک ہوسکتی ہوں،میںبہادر ہوں۔اور پھر کچھ دنوں بعد بچی کھیلنے کودنے لگی۔

قارئین کرام۔اتنی لمبی تمہید باندھنے کی آخر ضرورت کیا تھی تو سنئے ،امسال جولائی کی انتہائی گرمی میں پشاور سے مختلف مذاہب کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم PCWRہمیں تین دن کے لئے ایبٹ آباد لے گئی۔وہاں ہمارے پانچ گروپس بنائے گئے۔جیسے پانچ مٹر کے دانے تھے،ان پانچ گروپس کو واپس آکر ایک ایک سرگرمی کرنی تھی۔ ہم چونکہ اندھیرے میں تھے اس لئے جیسے سورج کی کرنوں نے مٹر کے دانوں کو اُجالا دیا ٹھیک ویسے ہی PCWRنے ہمیں ایبٹ آباد لے جاکرکیا۔ہم گئے تو ایک پھلی میں تھے مگر واپسی پر ہمیں پانچ مٹر کے دانوںمیں تقسیم کچھ مقاصد دے کر لایاگیا۔ہم واپس آئے یعنی اب ہمیں اپنا عملی کام کرنا تھا،ہر مٹر (گروپ) نے ایک ایک سرگرمی کا انعقادکیا۔چونکہ کام تو سبھی دانے کرتے ہیں مگر کوئی بیج میں آکر ختم ہوجاتاہے تو کوئی ننھا پودابن جاتاہے تو کوئی باقاعدہ پودابن کر آگے تخم دیتاہے۔

جیسے اس مٹر کے دانے نے بیمار بچی کو ہمت وحوصلہ دیا،ہمارے ایک گروپ نے پشاور کے ایک ایسے علاقے میں سرگرمی کا انعقادکیا۔جہاں کام تو درکنار ایسے علاقوںمیںجانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ہمارے اس مٹر کے دانے (گروپ) کو گزشتہ رو ز ایک تقریب کے دوران PCWRکی انتظامیہ نے پہلے انعام کا حقدار قرار دیا۔جہاں دیگر مٹر کے دانوں (گروپس) نے PCWRکی اس کاوش کو سراہا اور ان کے فیصلے کی دل ودماغ سے تائید کی۔قارئین کرام۔میری اب تک کی باتیں ان دوستوں کو سمجھ آرہی ہوںگی جو ہمارے ساتھ مذکورہ پروگرامات میںشریک تھے۔اس لئے آخر میں وضاحت کرتا چلوں،PCWRصوبہ خیبرپختونخوا میںمختلف مذاہب کی نمائندہ تنظیم ہے جو پاکستانیت کی بات کرتی ہے۔جہاں صرف اور صرف امن کی بات کی جاتی ہے۔جہاں موجودہ منتشر اور متنفر دورمیں انسانیت کا پاٹ پڑھایا جاتا ہے۔

Waqar Ahmad

Waqar Ahmad

تحریر : وقار احمد اعوان