تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ہمارے سامنے جو سجادہ نشین کو ہ ہمالیہ کی چوٹی پر فرعون بنا بیٹھا تھا یہی پیر کچھ دیر پہلے ایک دولت مند کے سامنے بھکا ری بنا بیٹھا تھا اپنے ہی دولت مندمرید کی خو شامد اِسطرح کر رہا تھا ۔جیسے یہ اپنے مرید سے بھیک مانگ رہا ہو ۔ آپ وطن عزیز کی تما م نامور گدیوں کے سجا دہ نشینوں کو دیکھیں تو وہ بھی آپ کو عام لو گوں کے سامنے فرعونی پیر جبکہ دولت مندوں اور با اثر لو گوں کے سامنے بھکا ری بنے نظر آتے ہیں ۔ حقیقیت یہ ہے کہ اپنی گدیوں کے اصل وارث اور بزرگ دنیا میں اِس شان اور بے نیازی سے زندہ رہے کہ زمانہ آج بھی اُن کے کردار کی عظمت انسان نوازی اور حق گو ئی کی مثا لیں دیتا ہے لیکن بعد میں آنے والوں نے اِن عظیم بزرگو ں یعنی اپنے آبا ئو اجداد کی عبادت ریا ضت اورتقوے کے دام چکا ئے اِن کا نام نیلام کیا اور اُن کے نام کو حصول زر کا ذریعہ بنایا۔
آپ تاریخ تصوف کا ورق ورق پڑھ لیں کسی بھی دور کے اہل حق نے اپنے قدموں سے چل کر کبھی بھی اہل اقتدار سے ملا قات نہیں کی اور اگر کبھی اہل اقتدار نے مجبور کر کے اِن روشن لوگوں کو اپنے درباروں میں بلا یا بھی تو اِن صوفیاء کرام نے کلمہ حق اِس جرات اور شان سے بلند کیا کہ شاہی محلوں کے در و دیوار سنا ٹے میں آگئے پا کستان کی تا ریخ کا مطالعہ اگر آپ کریں تو موجودہ سجا دہ نشین اور جا نشین قومی اور صوبائی اسمبلی کی ممبری ٹکٹ کے لیے کبھی تو ایوب خان کے در پر دامن مراد پھیلا ئے نظر آئے کبھی بھٹو کے در پر دست بستر نظر آئے اور پھر کبھی ضیا الحق کی قصیدہ گو ئی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی جھوٹی کو ششوں میں نظر آئے اور کبھی بلاول ہا ئوس اور چوہدری ظہور الہی روڈ پر طواف کر تے پکڑے گئے اور کبھی ما ڈل ٹائون اور رائے ونڈ میں چلا کشی کر تے نظر آئے اور کبھی بنی گا لا کی بلندی پر چڑھتے دیکھے گئے ہر دور میں یہ سجا دہ نشین چڑھتے سورج کی پو جا کر تے نظر آئے اور یہ بھکا ری نما سجا دہ نشین نام تو اپنے اسلاف کا لیتے ہیں جبکہ استحصال یہ عوام کا کر تے نظر آتے ہیں۔
چشم فلک تا ریخ کی صداقتیں، کروٹیں اور لیل و نہا ر کی گردشیں گواہ ہیں اِن سجا دہ نشینوں کے اسلاف نے کبھی بھی اہل اقتدار کی طرف نظر بھر کر نہ دیکھا اور نہ ہی کبھی اہل اقتدار کے دستر خوا ن پر بیٹھے ۔ کسی منصب دار اور چوبدار کی خو شامد اور دوستی میں پا گل ہو تے نظر نہ آئے خدا ئے بے نیاز کے علا وہ کبھی کسی اہل اقتدا ر کے گھر کا طواف نہیں کیا اِن بزرگوں کا بسیرا کبھی قصرِ سلطانی کے گنبد پر نہیں رہا کیونکہ وہ مردہ شکار کو خو د کے لیے حرام سمجھتے تھے اور اہل اقتدار کے شاہی دستر خوانوں کی کھر چن کھا نا اور کسی کی اُترن پہننا ان کے نزدیک شرک جیسا جرم عظیم تھا ۔ جبکہ انہی بزرگوں کے مو جودہ گدی نشیں با اثر لوگو ں کی اُترن اور کھرچن کھا نا عظیم سعادت سمجھتے ہیں۔
Fake Peer
آج کے گدی نشینوں نے خود کو معاشرے میں فعال اور با اختیار رکھنے کے لیے با اثر لوگوں کی خو شامد کو اپنا وطیرہ بنا لیا ۔ جہاں کو ئی بھی طا قت یا با اثر فرد نظر آیا اُس سے دوستی اور اُس کے در پر تحفے تحائف بھیجنے شروع کر دیے یعنی آج کے پیروں نے خود کو اللہ تعالی کا غلام بنا نے کی بجا ئے دنیاوی خدائوں کو اپنا داتا اور خدا بنا لیا ہے ۔ خود کو قومی اسمبلی اور صوبا ئی اسمبلی میں پہچانے کے لیے یہ آخری حدوں سے بھی گزر جا تے ہیں ۔اِس کام کے لیے یہ عوام کی نذر نیاز کا بے دردی سے استعمال کر تے ہیں جس طرح کو ئی بڑا دوکاندار یا کا روباری لو گ اپنے کا روبار کو وسعت دینے کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں اپنی برانچیں کھولتے ہیں تا کہ زیادہ سے زیادہ لو گوں کو اپنی طرف راغب کر کے اُن کو لو ٹا جا سکے اِسی طرح اِن گدی نشیوں نے زیادہ سے زیادہ مرید بنا نے اور پھر اُن کو لو ٹنے کے لیے ملک کے تمام بڑے بڑے شہروں میں اپنے آستانے قائم کر رکھے ہیں اور پھر اِن آستانوں کو چلا نے اور زیادہ سے زیا دہ لو ٹ مار کے لیے اِن آستانوں پر عوام کے مذہبی اور روحانی جذبات سے کھیلتے ہو ئے مختلف روحانی تقریبا ت منعقد کر کے عوام کو اپنے زر خرید غلام یا مرید بنا یا جا تا ہے۔
پھر اِن کا سب سے بڑا ڈرامہ یہ ہو تا ہے ۔ جب یہ مریدوں سے کہتے ہیں کہ اُن کو اپنے گھر بلا ئواب کو ئی غریب مرید تو اِن کو اپنے گھر بلا ہی نہیں سکتا کو ئی پیسے والا ہی اِن کو اپنے گھر بلا تا ہے ۔ جب آپ اِن کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیتے ہیں تو یہ اپنی پیجا روںاور بڑی گا ڑیوں کا پٹرول ما نگتے ہیں پھر پیر صاحب کے ساتھ اُن کے خو شامدی مریدوں کاٹولہ اور پھر پیر صاحب کی نذر یعنی پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک اگر کو ئی دے سکے تو پھر پیر صاحب کی دعا لی جا سکتی ہے ورنہ نہیں ۔ اور جب یہ مریدوں کے گھر میں آتے ہیں تو زبردستی پیسے لیتے ہیں میرے پا س ایک شخص آیا کہ میں آپ کے ہا تھ پر بیعت ہو نا چاہتا ہوں میں نے کہا میں خود کو اِس قابل نہیں سمجھتا اور میں تو ابھی خو دطالب علم ہو ں تو وہ کہنے لگا آپ میرے گھر آنے کے کتنے پیسے لیں گے تو میں نے کہا میں تو گھر آنے جا نے کے کو ئی پیسے نہیں لیتا تو اُس کو یقین نہ آئے وہ بار بار کہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پیر صاحب گھر آئیں اور وہ پیسے نہ لیں میرے پو چھنے پر اُس غریب معصوم آدمی نے بتایا پرو فیسر صاحب ہما رے پیر صاحب پچھلے کئی سالوں سے ہما رے گھر پر چھ ما ہ بعد چکر لگا تے ہیں اور ہم سے جو بھی بن پڑتا ہے۔
ہم پیر صاحب کی خدمت کر تے ہیں اِس بار جب پیر صاحب آئے تو انہوں نے گا ئوں آتے ہی اعلان کر دیا کہ آستا نے کی تعمیر اور بیٹی کی شادی کے لیے تمام مرید بڑھ چڑھ کر نذر دیں اب پیر صاحب نے گھر گھر جا کر مریدوں کو لو ٹنا شروع کر دیا وہ زبردستی مریدوں کی جیبوں سے پیسے نکا لتے اُن کو ڈراتے دھمکاتے کہ پیسے لے کر آئواگر دعا کرا نی ہے یا مسائل حل کر انے ہیں تو زیادہ سے زیادہ پیسے لا ئو اب مریدوں نے اپنے زیورات اور جا نور بیچ کر پیر صاحب کو دینے شروع کر دئیے ۔ میں نے بھی اپنے جا نور بیچ کر پیر صاحب کے لیے ایک بڑی رقم اکٹھی کر لی یہ جانور میں نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے رکھے ہو ئے تھے میرے بیٹے کو جب یہ پتہ چلا تو وہ بہت نا راض ہوا وہ پڑھا لکھا ہے اُس نے ہم دونوں میا ں بیوی کو سختی سے منع کیا کہ ہم اتنی بڑی رقم پیر صاحب کو نہ دیں۔
Peer
ہم نے ضد کی کہ ہم تو یہ رقم پیر صاحب کو ضرور دیں گے تا کہ وہ ہمارے لیے دعا کر سکے ہما ری ضد دیکھ کر ہما رے بیٹے نے تما م پیسے ایک صندوق میں رکھ کر تا لا لگا دیا ۔اور خود اُس دن گھرسے با ہر کسی دوسرے شہر چلا گیا جس دن پیر صاحب نے ہما رے گھر جلوہ افروز ہو نا تھا ۔ اور پھر پیر صاحب ہما رے گھر تشریف لے آئے ہم نے پیر صاحب کے لیے گھر کا کو نہ کو نہ صاف کیا ہوا تھا ۔ پیر صاحب آئے ہم نے خوب خا طر مدارت کی اُن کی خدمت میں کو ئی کسر نہ چھوڑی پیر صاحب کی نظر ہما ری خدمت اور شاندار کھا نے پر نہ تھی وہ تو اِس انتظار میںتھے کہ ہم نذر کے طور پر بڑی رقم کب اُن کی خدمت میں پیش کر تے ہیں اور پھر ہم نے پیر صاحب کو بڑی رقم بطور نذر پیش کی تو پیر صاحب نے انتہا ئی ڈھٹائی سے اِس رقم کو پہلے گنا اور پھر حقارت سے رقم ہما ری طرف پھینک دی کہ اتنی تھو ڑی نذر رقم میں نہیں لوں گا مجھے زیا دہ پیسے چاہیں۔
ہم نے بہت منت سما جت کی کہ ہما رے پا س جو رقم تھی وہ ہم نے آپ کے چرنوں میں رکھ دی ہے لیکن پیر صاحب کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا کہ فلا ں اور فلاں نے اتنی زیادہ نذر دی ہے آپ لوگ بہت کم نذر دے رہے ہیں اگر تم نے زیادہ پیسے نہ دیے تو ہم آپ کے لیے دعا نہیں کریں گے اور آپ کو مریدوں کی لسٹ سے بھی نکال دیں گے پیر صاحب مسلسل زیا دہ پیسوں کا اصرار کر رہے تھے اور ہم احتراماً انکار اور معا فی ما نگ رہے تھے ۔ اب پیر صاحب نے ہما رے گھر کی تلا شی شروع کر دی تلا شی لیتے لیتے پیر صاحب اُس صندوق تک پہنچ گئے جس میں بیٹی کے جہیز کی رقم پڑی ہو ئی تھی۔
اب پیر صاحب نے ہم سے تا لے کی چابی ما نگنی شروع کر دی جو ہما رے پا س نہیں تھی ہما رے بار بارانکار پر پیر صاحب نے اینٹ سے تا لا تو ڑا اور ساری رقم نکا ل کر کہا یہ دیکھو میں نے کشف سے اندازہ لگا لیا تھا کہ اِس صندوق میں بڑی رقم ہے پھر پیر صاحب وہ رقم لے کر چلا گیا ۔ میںحیرت اور ہمدردی سے معصوم مرید کو دیکھ رہا تھا جس کا پیر بھکا ری بن کر اُسے لو ٹ کر چلا گیا تھا۔
PROF ABDULLAH BHATTI
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: [email protected] فون: 03004352956