پیروں کی چالیں

Peeron Ki Chalian

Peeron Ki Chalian

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
فلمی اداکار نما سجادہ نشین کے چہرے پر پریشانی اور خجالت کے تاثرات ابھرنے شروع ہو گئے تھے وہ صبح سے اب تک اپنی ترکش کے تمام تیر چلا چکا تھا لیکن ابھی تک اُس کا ایک بھی تیر نشانے پر نہیں لگا تھا صبح سے ابتک اُس نے مجھے زیر کر نے مجھے پھانسنے یا متاثر کر نے کے لیے بہت سارے جا ل میرے اوپر پھینکے تھے لیکن اُس کی تما م کو ششیں دم توڑ چکی تھیں اب وہ بے بسی اور شرمندگی کا مجسمہ بنا پریشان نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا اُس کے چہرے کے تا ثرات رنگوں اور جسمانی حرکا ت سے واضح طور پر اُس کی پریشانی ، شرمندگی اور بے بسی نظر آرہی تھی وہ روزانہ سینکڑوں انسانوں کو آسانی سے ذبح کر تا تھا لیکن آج میرے سامنے وہ نا کا می سے دو چار نہیں ہو نا چاہتا تھا میرے سامنے وہ شرمندہ ہو رہا تھا اُس کو اصل شرمندگی اور غصہ یہ تھا کہ وہ اپنے مریدوں خادموں کے سامنے دنیاوی خدا بنا بیٹھا تھا جس کو کبھی بھی ہا ر کا سامنا نہیں ہو ا تھا۔

اب اُس کویہ پریشانی اور شرمندگی بھی تھی کہ اُس کے مرید اور خادم کیا کہیں گے اُس نے بے بسی کے عالم میں اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔ اب وہ کسی گہری سوچ میں پڑ گیا تھا وہ ظاہر یہ کر رہا تھا کہ وہ عالم استغراق یا مرا قبہ کی گہرائی یا بلندی پر پرواز کر رہا ہے اصل میں مرا قبہ یا استغراق کا تو اُسے بلکل بھی پتہ نہ تھا وہ تو گہری سوچ میں غرق سوچ رہا تھا کہ کو نسا طریقہ کر تب یا چال چلوں کہ میں اُس کی روحانیت کا قائل ہو جا ئوں غلطی وہ یہ کر رہا تھا کہ صبح سے اب تک دنیا داری دنیا وی ڈرامے با زیاں اور ما دیت پر ستی کا ہی مظاہرہ کئے جا رہا تھا ۔ تصوف ، روحانیت مرشد مرید روحانیت کے پراسرار رازوں کے متعلق نہ تو وہ جانتا تھا اور نہ ہی وہ تصوف پر بات کر رہا تھا یہی اُس کی غلطی تھی کیونکہ دنیا داری اور مادیت پر ستی ہی اگر کسی کی بزرگی اور ولایت کا پیمانہ ہوتی تو یہ کسی بھی امیر کا رخانے دار یا دولت مند کے در پر جا کر دیکھی جا سکتی تھی ہم تو یہاں روحانیت اور تصوف کے مو تی چننے آئے تھے جبکہ وہ ہمیں دولت کے سکوں سے متا ثر کر نے کی نا کا م کو شش کر رہا تھا۔

Advice

Advice

اپنی اِس کوشش میں وہ حما قتوں پر حماقتیں کئے جا رہا تھا۔ اپنی ہر نئی حرکت کے ساتھ اُس کا قد ہماری نظروں میں چھوٹا ہو تا جا رہا تھا۔ اب وہ ہما رے سامنے بیٹھا غور و فکر اور مرا قبے کا ڈرامہ ر چارہا تھا اور پھر اچانک اُسے کو ئی خیال یا ترکیب آئی اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور جھٹکے سے سیدھا ہو کر پہلے بیٹھا اور پھر کھڑا ہو کر تیزی سے چلتا ہوا زنان خانے میں گھُس گیا۔ پیر صاحب شاید زنان خانے میں کسی سے مشورہ کرنے گئے تھے ہم حیران پریشان پیر صاحب کی اِس نئی حرکت پر سوچ رہے تھے کہ اب پیر صاحب کونسی نئی چال چلتے ہیں میں پیر صاحب کی اداکاری اور قلابازیوں سے بہت زچ ہو چکا تھا کہ پتہ نہیں کب ہما ری جان اِس مضحکہ خیز گدی نشین سے چھوٹے گی ابھی ہم یہ سوچ ہی رہے تھے کہ پیر صاحب تیزی سے واپس آتے نظر آئے اب پیر صاحب کے چہرے پر خوشی اور جوش کا رنگ نظر آرہا تھا پیر صاحب کو کسی نے اچھا مشورہ دیا تھا اُس مشورے کے بعد پیر صاحب بہت پر جوش اور خو شی سے دیوانے ہو ئے واپس آئے اُن کے چہرے کے رنگ اور جسمانی حرکت سے لگ رہا تھا ۔ جیسے پیر صاحب کے ہا تھ قارون کا خزانہ لگ گیا ہو۔

پیر صاحب کی چال جسمانی حرکا ت اور چہرے کا رنگ بتا رہا تھا کہ وہ بہت ہی پر یقین تھا کہ اِس چال سے وہ کا میاب ہو گا اپنی اِس چال کے کامیاب ہو نے کا اُنہیں بہت زیا دہ یقین تھا کہ اب یہ تیر یقینا نشانے پر لگے گا اور وہ اپنے مقصد میں کا میاب ہو گا ۔ اب ہم بھی متجسس نظروں سے پیر صاحب کی طرف دیکھ رہے تھے کہ پتہ نہیں اب یہ کو نسا کر تب یا چال چلتے ہیں اپنی حما قتوں کی لسٹ میں ایک اور حما قت کا اضا فہ کر تے ہیں ہم اشتیاق بھر ی نظروں سے پیر صاحب کی اگلی حر کت کا انتظا ر کر رہے تھے ۔ پیر صاحب آکر ایک بار پھر اپنی شاہی مسند پر جلوہ افروز ہو گئے اب اُن کے چہرے اور سمانی حر کا ت سے اعتماد چھلک رہا تھا وہ بہت پر اعتماد تھا کہ کا میا بی ہر صورت میں اب اُس کا مقدر ہے ۔ وہ پہلے تو مغرور فا تحانہ نظروں سے ہما ری طرف دیکھتا رہا پھر اُس نے خا دموں کو اشارہ کیا کہ اُس خا ص کمرے کو کھولا جا ئے جس میں اُ نکے خاندانی نوادرات اور بزرگوں کے استعمال کی ذاتی اشیا ء رکھی گئی ہیں ۔ پیر صاحب ہما ری طرف دیکھتے ہو ئے با واز بلند بولے یہ ہما رے خا ندان کے بزرگوں کا خاص کمرہ ہے اِس کمرے کو بہت خا ص مو قعوں پر کھولا جا تا ہے۔

آپ خو ش قسمت ترین لو گ ہیں جن کو اِس خا ص کمر ے میں جا نے کی اعلی سعادت نصیب ہو گی یہ خا ص بزرگوں اور لوگوں کے لیے ہی کھولا جا تا ہے آج ہم آپ کو اِس کمرے اور اشیا کی زیا رت کرا ئیں گے اِس کمرے کی زیارت کے بعد آپ بھی اُن خوش قسمت ترین لو گوں میں شامل ہو جا ئیں گے جنہوں نے اپنی آنکھوں اور روحوں کو اِن نا یا ب اشیا کی زیارت سے روشن کیا ہے اور پھر پیر صاحب با وقار اور مغرور انداز سے کھڑے ہو گئے اب ہم اُس نا یا ب کمرے کی زیا رت کے لیے جا رہے تھے اور پھر ہم ایک بہت پرا نے لکڑی کے دروازے پر جا کھڑے ہو ئے پرانی لکڑی کے دروازے کی شکستگی بتا رہی تھی کہ یہ دروازہ صدیوں پرا نا ہے بہت بڑے پرانے تا لے کو خادم نے کھولا اور پھر ہم عطر اور خو شبوئوں سے مہکتے کمرے میں داخل ہو گئے پھر فوری طور پر خادم نے لا ئٹ جلا ئی تو کمرہ روشن ہو گیا کمرے میںواقعی بہت پرا نے ملبوسات ٹو پیاں اور ما لائیں تسبیحات مٹی کے برتن چارپائیاں کچی مٹی کے گھڑے پیتل کے برتن پرانی کتابیں اسلامی کتا بیں سروں پر پہننے والی بڑی بڑی پگیں پرا نے حُقے پرانی لکڑی کے عصاء پھولوں اور ریشمی تا روں کے پرانے بہت سارے ہا ر ریشمی ہا روں کی ریشمی سنہری تا روں کا رنگ سیا ہی ما ئل ہو چکا تھا۔

Karamat

Karamat

اب پیر صاحب نے فاتحانہ نظروں سے ہماری طرف دیکھا اور کمرے میں موجود چیزوں اور نوادرات کے با رے میں live کمنڑی شروع کر دی کہ یہ چیز یا لباس فلاں بزرگ کا ہے یہ فلاں دور کا ہے اِس کی کرامت یہ ہے اِس کی کرامت وہ ہے یہ اتنے سال پرا نا ہے یہ اتنی صدیا ں پرانا ہے میں ہمیشہ سے تاریخ کا طالب علم رہا تھا میں تجسس اور غور سے تما م اشیا ء کو دیکھ رہا تھا ۔ محترم قارئین آپ پاکستان یا بھارت کی کسی بھی بڑی گدی پر چلے جا ئیں اکثر جگہوں پر آپ کو ایسی نا یا ب اور پرانی چیزیں دکھائی جا ئیں گی پا کستان میں روحانی گدیوں کے علا وہ بھی بہت سارے گھر وں میں کو ئی نہ کو ئی متبرک چیز آپ کو ملے گی اب وہ چیز اصل ہے یا نقل یہ تو خدا ہی جا نے لیکن عقیدت مندوں کے مذہبی اور روحانی ذوق کو کیش کرا یا جا تا ہے اور جن کے گھروں میں ایسی اشیا ہیں وہ بھی سجا دہ نشینوں کی طرح فخریہ طور پر اپنی اِن اشیا کی نمائش کر تے ہیں اور پھر پیر صاحب ہمیں ایک پرا نے صندوق کے پا س لے آئے اور ہما ری طرف اِسطرح دیکھا جیسے مداری سانپ نکالتا ہے۔

اب انہوں نے صندوق کھولا تو اُس میں پرانے قیمتی پتھرکی انگوٹھیاں اور سکے موجود تھے اب اُنہوں نے اِن اشیا کے قصیدے پڑھنے شروع کر دیے پیر صاحب کے پرانے سکے دیکھ کر مجھے وہ غریب دیہا تی یا د آگیا جو ایک دن میرے پاس آیا اور مجھے کہنے لگا کہ پرو فیسر صاحب حساب لگا ئیں کہ میرے مقدر میںجنت لکھی جا چکی ہے تو میں نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا اور کہا کہ تم نے ایسا کو ن سا عمل کیا ہے کہ جنت تم پر واجب ہو چکی ہے تو اُس نے کہا کہ میرے پیر صاحب نے مجھے کہا کہ تم پر جنت واجب ہو چکی ہے ہم نے تم کو جنت کی ضما نت دی اب تم کو ئی نیکی یا اچھا عمل کرو نہ کرو اب تم جنتی ہو چکے ہو میںنے حیرت سے اُس دیہا تی کو دیکھا اور اشتیاق بھر ے لہجے میں اُسے کہا کہ تم بتا ئو تم نے کیا نیکی کی ہے اور تمہا را پیر کیا مقام رکھتا ہے اُس کو کس نے یہ پا ور یا مقام دیا ہے کہ وہ دنیا میں بیٹھ کر لو گو ں میں جنت تقسیم کر رہا ہے۔

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: [email protected]
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org