اگر ہم بھی قلم کی آبرو نیلام کر جاتے

اگر ہم بھی قلم کی آبرو نیلام کر جاتے
تو پھر حالات کے مارے ہوئے انساں کدھر جاتے

اگر محرومیوں کے روگ نہ دِل کو لگے ہوتے
تو ہم لفظوں کے کاریگر جہاں سے ہنر جاتے

کبھی تو وسعت کون و مکاں سے بے خبر ہوکر
کسی کی آنکھ سے ہوتے ہوئے دل میں اتر جاتے

ہمیں بھی زِندگی سے درد کی خیرات لینا تھی
دیارِ ذات سے خوش باش ہم کیسے گذر جاتے

تیرے خوابوں کے سب منظر بِکھر جاتے اگر ہم بھی
تری دہلیز پر ان جاگتی آنکھوں کو دھر جاتے

کسی کی یاد کے موسم نہ راس آئے ہمیں ساحل
وگرنہ زرد پتوں کی طرح کیسے بِکھر جاتے

Writing

Writing

تحریر : ساحل منیر