وہ دورکس قدر خوبصورت تھا کہ جب انگلیاں موبائل یا ٹیب کی سکرین پر تھرکنے کی بجائے کتاب کی سطور کا تعاقب کیا کرتی تھیں ۔ وہ زمانہ کتنا دل کش تھا کہ صبح سویرے واٹس ایپ اور فیس بُک میسجز ازبر کرنے کی بجائے تازہ اخبار سے دن کا آغاز کیا جاتا تھا۔ مجھے آج بھی اپنے بچپن کا دور یاد آتا ہے اور شدت سے جی چاہتا ہے کہ وقت ماضی کی جانب پھر سے محو پرواز ہو جائے ۔ یہ موبائل ، یہ لیپ ٹاپ ، دنیا سے رابطے کے ضامن یہ تمام جدید آلہ جات غائب ہو جائیں اور وہ دور کسی طرح لوٹ آئے کہ جب میری زندگی کا محور و مقصد محض کتابیں خریدنا اور کتابوں کیلئے پیسے جمع کرنا ہوتا تھا ۔ عید ، تہوار اور دیگر مواقعوں پہ ملنے والی رقوم کو میں احتیاط سے اکھٹا کیا کرتی تھی اور اس کے بعد جب دو تین کتابوں جتنے پیسے جمع ہو جاتے تو اپنے پسندیدہ رائٹرز ، جن میں ممتاز مفتی صاحب سرفہرست تھے اور ہیں، کی کتب منگوا لیا کرتی تھی ۔ خیر راحت و سکون سے مزین وہ دور اپنی تمام تر بہاریں لٹا کر اختتام پزیر ہوا ۔ تیزی سے تبدیل ہوتے لمحوں اور جدید ٹیکنالوجی تک رسائی پانے کے باوجود کتب بینی سے تعلق تو نہ ٹوٹا البتہ جلد شدہ کتاب کی جگہ ای بکس اور ای نیوز پیپرزنے بڑی حد تک لے لی، چنانچہ میں بھی اسی ڈگر پہ چل پڑی کہ جس پہ دنیا سرپٹ دوڑ رہی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ لیپ ٹاپ ، موبائل ، انٹرنیٹ اور گوگل جیسی ایجادات نے کتب بینی کو کاری ضرب لگایا ہے ۔ علم و آگہی کے متلاشی اب کسی قسم کی معلومات سے فیض یاب ہونے کیلئے کتاب نہیں کھولتے بلکہ گوگل سرج انجن پہ کلک کرتے ہیں یا پھر فیس بک و ٹوئٹر کی خاک چھانٹتے ہیں۔ اگر کسی رائٹریا ادیب کی کتاب کا مطالعہ کرنا ہو تو وہ بھی پی ڈی ایف کی صورت میں بآسانی ڈائون لوڈ کی جا سکتی ہے یعنی آپ کو ضرورت ہی نہیں کہ آپ کتاب یا رسائل کی خریداری پہ پیسہ صرف کریں یا کتابوں کو سنبھالنے کے جھنجھٹ میں پڑیں کیونکہ انٹرنیٹ کی دریافت نے ہر شے بہت آسان اور سستی بنا دی ہے۔ لیکن جدید ٹیکنالوجی کے دلدادہ افراد کی بھرمار کے باوجود دنیا میں اب بھی بہت سے لوگ ایسے بستے ہیں جو کتاب سے نہ صرف خود ناطہ جوڑے ہوئے ہیں بلکہ مختلف پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے کتاب کی اہمیت و افادیت کو بھی بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ کتاب و قلم کے ان متوالوں میں ایک نام حافظ عثمان علی معاویہ اور مدثر سبحانی کا بھی ہے جو اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے علم و ادب کو فروغ دینے میں مگن ہیں اور اس سلسلے میں ”پاسبانِ بزمِ قلم” کی بنیاد رکھ چکے ہیں۔
گزشتہ ایام ایکسپو سینٹر لاہور میں سالانہ ”بک فیئر” کا انعقاد کیا گیا ۔ بُک فیئر کے اختتام سے ایک روز قبل پاسبانِ بزمِ قلم کے اکابرین نے ساتھیوں سمیت ایکسپو لاہور میں علم و عرفان سے لبریز محفل برپا کی ، جس میں مجھے بھی شرکت کی دعوت دی گئی ، جو میرے لیے بلاشبہ باعثِ اعزاز تھی ۔ ایکسپو پہنچنے پر پاسبان کے صدر حافظ عثمان علی معاویہ اور چیئرمین مدثر سبحانی نے نہایت خندہ پیشانی کیساتھ استقبال کیا جبکہ پاسبان سے جڑے دیگر بھائی بھی ادب و احترام سے پیش آئے ۔ اس قدر عزت افزائی پہ میں سب کی مشکور ہوں۔ ایک بھائی نفیس دانش صاحب نے ایک دو سوال کیے اور پھر پورا انٹرویو ہی کر ڈالا ۔ قومی صحافت و ادب کے سمندر میں ، میں ایک قطرے کے برابربھی نہیں لہٰذا میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتی کہ اس قسم کا انٹرویو دے سکوں لیکن پھر بھی پاسبانِ بزم قلم نے مجھے عزت بخشی ۔ جس کا شکریہ ادا کرنے کیلئے میرے پاس ذخیرہ الفاظ ناپید ہو چکا ہے۔
پاسبانِ بزم قلم نے مہمانِ خاص کے طور پہ معروف نامور صحافی و ادیب محی الدین نظر (مرحوم) کے منجلے صاحبزادے، صحافی و ادیب، استادوں کے استاد ، محترم ندیم نظر صاحب کو بھی مدعو کر رکھا تھا اور مہمانِ خاص کے طور پہ پاسبان کیلئے ندیم نظر صاحب کا انتخاب کرنانہایت سود مند تھا کیونکہ ندیم صاحب خودبھی نوجوان ہیں ، نیز میدانِ صحافت میں وسیع تر تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ ان کی صحافت کی خاص بات یہ ہے کہ وہ سینئر ہونے کے باوجود ، جونیئرز کو حوصلہ دیتے اور ان کاادبی فن تلاشنے میں بھرپور رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ چنانچہ میں پاسبانِ بزمِ قلم کو مبارک باد پیش کروں گی کیونکہ حافظ عثمان علی معاویہ اور مدثر سبحانی نے پہلے انٹرویو کیلئے اسے چنا کہ جسے صحافت ورثے میں ملی ہے، اور جو لکھاری کی قدر و قیمت سے واقف ہے۔
فروغ کتاب کے سلسلے میں پاسبان کی ایکسپو سینٹر لاہور میں منعقدہ محفل میں ، میں نے یہی بات کہی کہ قومیں زندہ وہی رہتی ہیں ، جن کا قلم و قرطاس سے رشتہ مضبوط ہوتا ہے اور جو اپنی تاریخ کو کتابوں کی صورت میں محفوظ رکھتی ہیں۔ دیکھیں اگر ہم نے اپنے مستقبل کو بدلنا ہے تو ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا ہو گا اور تاریخ ہمیں کتابوں میں ہی ملے گی ۔ ٹھیک ہے کہ آج انٹرنیٹ کا بول بالا ہے ، جدید ٹیکنالوجی نے انسان کو سہل پسند بنا دیا ہے لیکن جو مزہ کتاب یا اخبارات کو ہاتھ میں تھام کر پڑھنے کا ہے ، وہ پی ڈی ایف کے ذریعے ہمیں مہیا نہیں ہو سکتا ۔ یاد رہے کہ انٹرنیٹ ہمیں صرف معلوم دیتا ہے، ویب سائٹس ہمارے حکم کی تابع ہیں ، وہ ہمیں وہی کچھ نکال کر دیں گی ، جو ہم ان سے مانگ رہے ہوں۔ جبکہ کتاب ہم پہ علم و آگاہی کے نئے نئے در کھولتی ہے ،
ہمیں وہ بھی بتاتی ہے ، جو ہم جاننا چاہتے ہیں اور وہ بھی بتاتی ہے جو ہم نے پہلے کہیں پڑھا نہ سناہو ۔ چنانچہ ضروری ہے کہ گوگل اور سوشل میڈیا کی دنیا سے نکل کر دوبارہ کتاب سے رشتہ جوڑا جائے اور پی ڈی ایف کی جتنی ممکن ہو سکے حوصلہ شکنی کی جائے ۔ لکھاری خواتین و حضرات کو بھی چاہیئے کہ وہ محض لائکس ، کمنٹس اور سینز حاصل کرنے کیلئے اپنے علم و فن کی بے قدری نہ کروائیں بلکہ کسی اخبار ، رسالے یا کتاب کی صورت میں چھپوانے کی کوشش کریں تاکہ آپ کی تصانیف سے لوگ اس وقت بھی فیض پا سکے اور آپ کو یاد کر سکیں کہ جب آپ اس جہاں فانی سے رُخصت ہو چکے ہوں۔