قلم دوست ادبی ترویج کی مظہر

Writing with Pen

Writing with Pen

تحریر : ایم اے تبسم
ادب سے انسان کا رشتہ اتنا گہرا ہوتا ہے کہ وہ چاہ کر بھی اس سے دامن نہیں چھڑا سکتا۔ پھر یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایک صحتمند معاشرے کی تشکیل کا ضامن ایک ادیب ہی ہوتا ہے۔ ادب انسان کے اندر تہذیب و شائستگی کا وہ تلاتم برپا کرتا ہے، جو انسان کو خوش اخلاقی و خوش کرداری کا پیکر بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ میں یہاںآپ کو ایک بات یہ بھی بتادوں کہ ادب کسی کے پروفیشن میں قطعاً آڑے نہیں آتا۔بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ ایک ادیب صرف ادیب ہوتا ہے اور کچھ نہیں، ادب کے علاوہ کسی دیگر پروفیشن سے تعلق رکھنے والے افراد معیاری ادب تخلیق نہیں کر سکتے، کیونکہ معیاری ادب تخلیق کرنے کے لیے اپنے آپ کو ادب میں کھپا دینا ہوتا ہے۔علامہ محمد اقبال نے فلسفہء عشق، خودی، شاہین اور ابن عربی کے صوفیانہ نظریئے کی تشریح و تعبیر شاعری کی زبان میں کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ شاعری چیزِ دیگر است۔اہلِ علم کا خیال ہے کہ تمام ذرائع ابلاغ میں شاعری موثر ترین ذریعہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ شاعر کے دل سے نکلی ہوئی بات قاری یا سامع کے دل تک براہ راست پہنچتی ہے اوردیر تک اپنا اثرقائم رکھتی ہے۔شایداسی لئے پیغمبر اسلام محمدۖ نے اپنے دور کے شاعروں کو Erotic شاعری اور خرافات کو ترک کرکے شاعری کے ذریعہ دین کو پھیلانے اور عوام اورمعاشرے کی اصلاح کرنے کا مشورہ دیا تھا۔آپ ۖ اگر چاہتے تو شاعری کو لعنت قرار دے دیتے لیکن آپ ۖ نے ایسا نہیں کیا ،کیوں کہ شاعری ایک ایسا Atom ہے جس سے تخریبی اور تعمیری دونوں کام لیے جا سکتے ہیں۔اس لئے آپ ۖنے سوچا کہ کیوں نہ اس سے تعمیری کام لیا جائے اس لئے آپ ۖ نے شاعری کی تعریف کی اور اس سے تعمیری کاموں کو انجام دینے کی ترغیب دی۔ مولانا حالی نے بھی شاعری کے ذریعہ معاشرے کی اصلاح کی بات کی اور مناجات بیوہ اور مدوجزر اسلام جیسی نظمیں لکھ کر معاشرے کی اصلاح کی تحریک چلائی۔

فارسی اور اردو کے بیشتر شعراء نے صوفیوں کے نظریہء وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے مشکل ترین مسائل کو شاعری کی زبان میں آسان اور موثرطریقہ سے پیش کر کے یہ ثابت کردیاکہ اپنے جذبات و خیالات کے اظہار کے لئے اس سے بہتر اور موثر ذریعہ کوئی دوسرا نہیں ہے، مشاعرے اور ادبی و شعری محفلیں جہاں عوامی تفریح کے ذرائع تھیں وہیںتہذیب سیکھنے ،ذہنی سکون حاصل کرنے اور تصوف کی پہلے زینہ سے آخری زینہ تک کا سفر طے کرنے کے لئے شاعری کی مدد لی جاتی تھی۔گزشتہ دنوں علمی وادبی تنظیم ”قلم دوست”کے زیراہتمام فیصل آباد کے نواح کھڑیانوالہ میں ایک خوبصورت عالمی مشاعرے کا انعقادہوا،

Poetry

Poetry

جس کی صدارت معروف شاعر،نقادباقی احمدپوری نے کی،مہمان خصوصی طارق اقبال اور مہمان اعزازخالد سجاد احمدتھے ،نظامت کے فرائض عصرحاضر کے ابھرتے ہوئے شاعرعطاء الحسن نے ادا کئے،عالمی مشاعرے کا آغازتلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول ۖسے کیا گیا،اس کے بعد باقاعدہ عالمی مشاعرے کا آغازہوا تو سب سے پہلے کلام پڑھنے کے لئے اسلام آباد سے ہوئے معروف شاعر فیصل اظفرعلوی کو بلایا گیا ،جنہوں نے اپنے کلام سے محفل مشاعرہ کے سامعین کو خوب محظوظ کیا،اس کے بعد بہت سے نئے و معروف شعراء کرام نے بھی اپنا اپنا کلام سنا کر خوب دادتحسین وصول کی،رحمان فارس کی شاعری سے ہال کا موسم کافی گرم ہوگیا،اور ہر طرف سے دادتحسین کی آوازیں آنے لگیں ،سامعین رحما ن فارس سے ان کی شاعری کو بار بار سنانے کے لئے کہتے رہے،

ایسا لگا جیسے رحمان فارس نے عالمی مشاعرہ ہی لوٹ لیا ہو،معروف شاعرہ ،صحافی پروین سجل نے خصوصی طورپر لاہور سے مشاعرے میں شرکت کی،پروین سجل خوبصورت شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا کلام بھی خوبصورت تھا،مہمان خصوصی اقبال طارق کو جب دعوت کلام دی گئی تو انہوں نے اپنی شاعری سے سوئے ہوئے حاضرین محفل کو اپنے اشعار سے دادتحسین دینے پر مجبور کردیا،مہمان اعزازخالدسجاداحمدنے جب اپنی شاعری کا آغازکیا توگویا فضا میں ایک نغمگی چھا گئی،اور شاعری کی رموزواوقاف سے واقفیت رکھنے والے گویا جھومنے لگے،خالدسجاداحمدباکمال شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ سیرت واخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائزہیں،ان کی شاعری حقیقت آشنائی سے بھری نظر آتی ہے،

ان کے بعد صدر محفل باقی احمدپوری کو دعوت کلام دی گئی ،جن کی شاعری سن کے ایسا لگتا ہے جیسے اپنے عہد کی تاریخ لکھ دی گئی ہو،ان کی شاعری میں مشاہدات وتجربات کی حقیقتیں نظر آتی ہیں،نظامت کے فرائض عطاء الحسن نے باخوبی ادا کئے ،خوبصورت انداز،دلکش لب ولہجے والے عطاء الحسن ساتھ ساتھ شعراء کرام کے کلام سے بھی سننے والوں کو محظوظ کرتے رہے،عطاء الحسن کا اپنا کلام انتہائی جاندار اور صاحب عقل ودانش کے لئے ایک پیغام تھا،

Columnist

Columnist

عطاء الحسن شاعری کی دنیا میں بہت ہی خوبصورت اضافہ ہیں،کالمسٹ کونسل آف پاکستان(سی سی پی) کے مرکزی صدر ایم اے تبسم ،فنانس سیکرٹری (سی سی پی) ساحر قریشی کے ہمراہ خصوصی طور پر لاہور سے تشریف لائے،محفل مشاعرہ میں طاہرہ سراء ،سعدیہ صفدرسعدی ( شیخوپورہ )، کائنات احمد (فیصل آباد )، اسحاق وردگ(پشاور)،ریاض شاہد،اے ایچ عاطف،صفیہ حیات،ڈاکٹررفیق شاہد،محمدشعیب الطاف ودیگر نے شرکت کی ،آخر میں ادبی وعلمی تنظیم ”قلم دوست” نے ادبی شخصیات کو شیلڈزسے نوازا ،کالمسٹ کونسل آف پاکستان (سی سی پی) نے مہمان شعراء کرام میں انکی ادبی خدمات کے اعتراف میں ان کوسند امتیاز سے نوازا گیا،

کہا جاتا ہے کہ”ادب” تہذیب کا چہرہ ہوتاہے اور شاعری چہرے کی لطافت و نزاکت ہوتی ہے کیوں کہ شاعری ادب کے تمام اصناف اور تمام فنونِ لطیفہ میں لطیف ترین صنف ہے۔ چہرہ اور خاص کر چہرے کی لطافت ونزاکت کے بغیر دنیا کی کسی بھی خوبصورت شے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔اس لئے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ادب اپنے آپ میں سب سے بڑا عجوبہ ہے اور شاعری اس سے بھی بڑا عجوبہ ہے۔

لہٰذا اس کی قدروقیمت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اس کی حفاظت کرنا ہماری اوّلین فرض ہے۔ایسی علمی وادبی محفلوں کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہمارے عوام اپنے اسلاف سے واقفیت حاصل کرسکیں،اور کوشش کی جائے کہ آئندہ بھی ایسی ہی محفلیں سجتی رہیں،کیونکہ اگر دوسرے لفظوں میں کہا جائے تویہ محفلیں ہمارے کردار کی درستگی اور اعلیٰ ظرفی کی تربیت گاہیں ہیں،

MA Tabassum

MA Tabassum

تحریر : ایم اے تبسم
EMAIL:matabassum81@gmail.com
0300-4709102