تحریر: اقبال طارق چند برس قبل سوشل میڈیا پر بننے والے ایک دوست کا شعر ایسا ذہن پر نقش ہوا کہ آج تک بھول نہیں پایا دیکھنے میں عام ساشعر کچھ یوں ہے کہ ” صرف تصویر رہ گئی باقی جس میں ہم ایک ساتھ بیٹھے تھے۔” شعر کے ساتھ ادب پر بات چیت کا سلسلہ جوچلا اور پھر بات دوستی تک آگئی صوتی رابطے اور پھر جب گزشتہ برس کچھ دن کے لیے جانا ہوا تو وقت کی کمی کے باعث میں تو ملنے نہیں جا سکا مگریہ دوست بڑی محبت سے سب کام ترک کر کے ملنے آگیا۔
چند گھنٹوں پر مشتمل اس ملاقات میں کچھ ادبی باتیں اور بہت سی آپس کی باتیں ہوئیں اور یہ نوجوان میرے دل میں اور جگہ بناتا گیا۔ کئی ماہ سے اس کی خواہش کہ میں اس بار ان کے شہر میں آؤں گا اور مشاعرہ بھی ہو گا میری نوکری کے سلسلے میں مجھے مارچ کی بجائے اپریل کی ١٠ تاریخ کو ہی جانا نصیب ہوا اور اپریل کی ٥ کو ایک شاعر دوست خالد سجاد کی کتاب کی تقریب میں شمولیت کی حسرت دل میں لیے میں ١٢ اپریل کو جب لاہور ائرپورٹ پہنچا تو عطا الحسن لاہور ائرپورٹ پر اپنا منتظر پایا وہاں سے ہم علی رضاکے پاس پہنچے جو کہ اچھے شاعر اور بہت اچھے نعت خوان ہیں وہاں رات بھر کا سفر اور تھکاوٹ بھول کر علی رضا کو ساہیوال گھر جانا بھول گیا اور مجھے سونا سو باتیں ہی باتیں تھیں شام تک مسلسل باتیں جبکہ ٤ بجے مجھے خالد سجاد صاحب کی دعوت پر پلاک میں ایک مشاعرے میں بھی شرکت کرنی تھی سو باتوں باتوں میں ہی ہم علی رضا کو ساہیوال کے رخصت کرکے میں عطا الحسن اور فواد احمد پلاک کی طرف روانہ ہوئے جہاں خالد سجاد کے ساتھ انڈیا سے تشریف لائے ہوئے مہمان شعرا ، شاہجان جعفری اور افروز عالم کے ساتھ بحرین سے ہی جناب ریاض شاہد بھی تشریف فرما تھے۔
مشاعرے میں حاضری کے بعد شاہجان جعفری اور افروز عالم کو اپنے وطن کے لیے فلائٹ پکڑنی تھی سو انہیں رخصت کر کے میں ریاض شاہد ، عطا الحسن اور فواد احمد انارکلی فوڈ سٹریٹ آگئے جہاں تصویریں باتیں کھانا تھا ۔ اور عطاالحسن کازیرِ بحث مشاعرہ جس میں ہم سب مدعو تھے۔ تھکاوٹ عطا الحسن کے چہرے سے صاف عیاں تھی کیونکہ مشاعرے کے تمام انتظامات صرف عطاالحسن اور شعیب الطاف ہی کر رہے تھے جبکہ شہر کے جغادری چاہتے تھے کہ یہ کل کے لڑکے تماشہ بنیں کیونکہ جوکام وہ آج تک سوچ بھی نہیں سکے یہ کل کے لڑکے کیوں کریں ؟ ہمارے ہاں یہی المیہ ہے کہ ہمارے اندر آگے بڑھنے کی قوت کو دوسرے کی راہ روکنے ہی صرف کرتے ہیں حالانکہ منفی سوچ کبھی مثبت نتائج نہیں دیتی مگر ہمیں اس سے کیا ہمارا کام تو راہیں بنانا نہیں راہیں مسدود کرنا ہے ہم صرف اپنے لیے سوچتے ہیں آنے والے کل لیے سوچنا ہماری توہین ہے۔
سو آج بھی صدیوں پرانی انہی ٹوٹی پھوٹی پگڈنڈیوںپر چل رہے ہیں جہاں تک ہمیں نظر آتا ہے وہیں تک ہماری دنیا ہے مختصر اور اپنی گلی اور محلے تک محدوددنیا۔اور جب ان دونوجوان لڑکوں نے اپنی دنیا سے نکلنے کی کوشش کی تو ان کی راہیں کیوں نہ روکی جائیں ، ١٤ اپریل فواداحمد کی گاڑی میں فواد احمد ، میں اور ریاض شاہد کھرڑیانوالہ کی رواں دواں تھے تو دوسری طرف خالد سجاد کی گاڑی میں خالد سجاد ، باقی احمد پوری اور حرارانا جبکہ فیصل آباد سے” ۔۔۔۔ مگر جو میرا مقدر تھا کیا ہوا اس کا” لپیٹی ہوئی عمر اور سہ روزہ ھذیان کے خالق معروف ڈرامہ نگار اور شاعر محمد فیضی جبکہ پشاور سے اسحاق ورگ۔اور دیگر کہی شہروں سے شعرا تشریف لارہے تھے ۔ مشاعرے کے مقررہ وقت پر تقریبا تمام شعرا اور سامعین تشریف لا چکے تھے مقامی ریسٹورنٹ کا اوپن ائیر کھچا کھچ بھرا ہوا تھاکہی بار مزید کرسیاں منگوا کر آنے والوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا ۔اور دیواروں پر شعرا کی تصویروں کے ساتھ ان کے شعر کے فلیکس مشاعرہ گاہ کا عجیب منظر پیش کر رہے تھے اور سٹیج ایسے سجایا گیا تھا کہ دیکھنے میں کوئی شادی کی تقریب جیسا منظر لگ رہا تھا ۔ نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی جو موبائیل کیمرے سے تصویریں بنانے اور ویڈیو بنانے کے لیے بے چین تھے اور میرا یہ خیال تھا کچھ ہی دیر میں یہ پنڈال خالی ہو جائے گا کیونکہ یہ نوجوان بس یونہی موج مستی کے لیے آئے ہیں کیونکہ شاید اس شہر میں پہلا مشاعرہ ہے اور جلد ہی نکل بھاگیں گے کیونکہ شب بھر جاگ کر کون شعر سنتا ہے۔
Writing
وائے حیرت یہ نوجوان آخر تک کرسیوں پر جمے رہے اور ہر شعر کو ذہن میں اتارتے ہوئے واہ ، واہ سے پنڈال آخر تک گونجتا رہا ، حالانکہ اکثر دیکھا ہے کہ شعرا خود بھی اپنا کلام سناکر ٩ دو گیارہ ہو جاتے ہیں ۔مشاعرے کی ابتدا کلامِ پاک کی تلاوت سے قاری محمد اعظم نے کی اور حاضرین کو مسحور کردیا تلاوتِ کلام اللہ کے بعد نعتِ رسولِ مقبول ۖ کی سعادت علی رضا سُلطانی نے حاصل کی اور حاضرین ِ محفل سے خوب داد سمیٹی جزاک اللہ کیا ہی عمدہ نعت اور آواز اللہ ، اللہ۔۔۔اس کے بعد مشاعرے کا باقائدہ آغاز ہوا جس کی نظامت عطا الحسن نے نہایت ہی عمدگی سے کی اور سب سے پہلے اپنے کلام سے آغاز کیا ۔ قارئین کے لیے منتخب کلام پیشِ خدمت ہے۔
صرف تصویر رہ گئی باقی جس میں ہم ایک ساتھ بیٹھے ہیں
آبلے میری زُباں پر ہیں تو حیرت کیسی میں نے اک بار تری جھوٹی قسم کھائی تھی عطاالحسن
مرے دُشمن کو آدابِ عداوت بھی سکھا دینا اُسے کہنا کہ بہنوں کی رِداؤں تک نہیں جاتے
رقص کرتا ہے ایسے گلیوں میں
جیسے اُس نے خُدا کو دیکھا ہے شعیب الطاف
کچھ اور تو ملا نہیں اظفر مجھے مگر ملنے کے بعد بھی اُسے کھونا پڑا مجھے
کہتی تھی جو کہ جی نہ سکوں گی ترے بغیر مرنے کے بعد وہ مرے سکون سے فیصل اظفر علوی
آئینہ سامنے حیرت میں پڑا ہوتا ہے جب ترا عکس مرے ساتھ کھڑا ہوتا یہ ترا غم ہے جہاں بھر کے غموں میں ایسے جیسے پودوں میں کوئی پیڑ بڑا ہوتا ہے حارث بلال
شدتِ دید کبھی اتنی بھی بڑھ جاتی ہے آئینہ توڑ کے تصویر نکل آتی ہے
زہر اس ماحول کا مجھ میں تھا بڑھ گیا سانپ نے کاٹا مجھے اور کاٹتے ہی مر گیا عمر ندیم
تمہارا قیس سے رشتہ نہیں تھا اب اُس جیسی یہ حالت ہے تو کیوں ہے
کسی کے اک اشارے پر جلا بیٹھی تھی سارے پر سعدیہ صفدر
میں جب تیری کہانی سے میاں تنہا نکل آیا ترے لہجے سے کہتے ہیں مرا لہجہ نکل آیا
میں جس دیوار پر آنکھوں کا پانی پھینک آیا تھا وہاں سُننے میں آیا ہے ترا چہرہ نکل آیا آغر ندیم سحر
ایسا لگتا ہے کبھی دل جو دھڑک جاتا ہے کوئی چھپ چھپ کے مجھے دیکھ رہا ہو جیسے
نہ کوئی شکوہ ہے نہ شکائت نہ گلہ ہم یونہی چاہیں گے بس اُن کی رضا ہو جیسے صفیہ حیات
دور سے آنکھ ملاتا ہے چلا جاتا ہے روز وہ مجھ کو رُلاتا ہے چلا جاتا ہے جانے وہ کیا بیچنے آتا ہے اس بستی میں صرف آواز لگاتا ہے چلا جاتا ہے کائنات احمد
گئے وہ دن جب ہر ایک رُت پر پیار آتا تھا گلوں کے شہر میں بھی حال اب ابتر سا رہتا ہے
جس سے مل کر ملا نہیں جاتا اُس ملاقات کی طرح ہوں میں ناز فاطمہ
بات احساس پہ پہنچی تو ہمیں مات ہوئی ورنہ سوچیں تو ہماری بھی خُدا جیسی تھیں
مجھ سے پوچھے نہ کبھی میری اُداسی کا سبب لگ کے سینے سے مجھے کاش رُلا دے کوئی فواد احمد
دن کا راجہ رات کی رانی بھیجی ہے اُس نے مجھ کو شام سُہانی بھیجی ہے اُس نے لکھا پیار کا حاصل بتلاؤ میں نے آنکھوں کی حیرانی بھیجی ہے حرا رانا
جنے حرف اُلیکاں زہراں تُکھدے نے کانا اے یا سَپ نوں گھڑیا ہویا اے
تِی نوں کیوں توں پھیڑا آکھیں
تِی کوئی لُٹ دا مال ہُندا اے طاہرا سرائ
میں نے بھی راہِ محبت میں قدم رکھا ہے قیس کو آخری معیار نہ سمجھا جائے
میرے خوابوں سے کھیلنے والے کھیل کے بھی اصول ہوتے ہیں اسحاق وردگ
کہانی ختم ہوئی اور ایسے ختم ہوئی کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
زُباں پر مصلحت دل ڈرنے والا بڑا آیا محبت کرنے والا رحمان فارس
سارے ہی لوگ اُس کی زیارت کو چل پڑے ظالم نے یوں ہجوم کا قبلہ بدل دیا
فقط کچے گھڑے کے واسطے میں یہ دریا ہاتھ سے روکے کھڑی ہوں پروین سجل
جیسا میں نے سوچا ویسا ہو سکتا ہے تجھ سا میں تُو میرے جیسا ہو سکتا ہے امبر کے اے چاند مجھے اک بات بتا جیسا میرا چاند ہے ویسا ہو سکتا ہے ریاض شاہد تم نے منزل سمجھ لیا ہے اسے اس جگہ سے سفر نکلتے ہیں
ایک تنہائی ضروری ہے سنبھلے کے لیے خود کو اندر نہیں باہر سے نکالا جائے محمد فیضی
حُسن دیکھا تو اُنگلیاں کاٹیں
کیا کریں اگر خُدا دیکھا
تمام رات ہی آنکھوں میں کٹ گئی طارق میں اپنی ماں کی دعا کاغذوں پہ لکھتا رہا اقبال طارق
ضیفی اس لیے مجھ کو سُہانی لگتی ہے اسے کمانے میں پوری جوانی لگتی ہے نتیجہ یہ ہے کہ برسوں تلاشِ ذات کے بعد وہیں کھڑا ہوں جہاں ریت پانی لگتی ہے خالد سجاد احمد وہ ایسے ڈھونڈنے نکلے ہیں باقی محبت جیسے رستے میں پڑی ہے
تم نے محلوں کے علاوہ نہیں دیکھا کچھ بھی ہم تو فُٹ پاتھ پہ سو لیں گے ہمارا کیا ہے باقی احمد پوری
یوں رات گئے قلم دوست کی قلم دوستی کی یہ ایک شب کی داستان اپنے اختتام کو پہنچی نوجوانوں اور کیمرہ مینوں کا جھرمٹ ہر ایک شاعرکے ساتھ تصویروں کے لیے بے تاب اور بے قرارقلم دوست کے نوجوان شاعروں عطاالحسن اور شعیب الطاف سے سوال اور شکوے کرتے ہوئے رخصت ہو رہا تھا کہ یار ہم سن کر آئے ہیں ہمیں دعوت کیوں نہیں ملی اور یہ میرا فون نمبر ہے اگلی بار نہیں بھولنا اور ہاں اگلی بار کب مشاعرہ کررہے ہو؟
ہاں یہ شاعر تو کمال ہے یار اسے ضرور بلانا اگلی بار اور سننے میں آیا ہے کہ آج بھی کھرڑیانوالہ میں لوگ شعرا کے شعر عطاالحسن اور شعیب کو سنا کر سوال کرتے ہیں یار یہ شعر کس شاعر کا ہے؟ کون ہے کہاں کا ہے ؟ مجھے اس سے کبھی ملواؤ تو سہی۔ زندہ باد قلم دوست زندہ باد ” کچے گھڑے کوتوڑنا ہو گا غرورِ موج ۔۔ تب ہی محبتوں کی نشانی میں آئے گا۔