تحریر : قادر خان یوسف زئی بھارتی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ صحافت کو صحافت رہنے دیا جائے، صحافی پوپ بن کر خطبہ یا جج بن کر فیصلے نہ کریں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ کا کہناہے کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں وہ اسٹوڈیو میں بیٹھ کر کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، وہ لوگ پوپ بن کر خطبہ یا جج بن کر فیصلے نہ کریں بلکہ صحافت کو صحافت رہنے دیں۔بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے بھارتی میڈیا کو تنبیہ کے پس منظر میں بھارتی میڈیا کا منفی رویہ کارفرماتھا جس میں ریٹنگ کے حصول کے لئے سنسنی اور بے بنیاد خبروں کو لیکر عوام میں بے چینی پیدا کی جاتی ہے۔ بھارتی میڈیا کے غیر ذمے دارانہ عمل سے جہاں بھارت کی عوام براہ راست متاثر ہوتی ہے تو دوسری جانب پڑوسی ممالک کے درمیان غلط فہیماں اور جنگی ماحول پیدا کرنے کی روش بھی پاک۔بھارت سرحدوں پر افواج کو آمنے سامنے جنگ کے لئے لاکھڑا کردیتی ہے ۔بھارتی میڈیا کی جانب سے غیر ذمے دارانہ رپورٹنگ نے کئی بار پاکستان اور بھارت پر جنگ کے سائے مسلط کئے۔تاہم پاکستان کے میڈیا ہائوسز نے خارجہ امور میں اپنی پیشہ ورانہ فرائض بخیر احسن انداز میں سر انجام دیئے۔حساس قومی معاملات پر کسی بھی ادارے کی جانب سے خبر، تجزیہ یا رپورٹ کا نشر ہونا یا اشاعت دراصل اُس ادارے کی اپنی ذاتی حیثیت سے بڑھ کر بین الاقوامی سطح پر ملکی سفیر کا درجہ رکھتی ہے۔پاکستان کے میڈیا ہائوسز بھارتی میڈیا کے مقابلے میں جنگی ماحول بنانے و خارجہ معاملات میں ہیجان خیزی پیدا کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ لیکن بھارتی میڈیا ہائوسز کے نزدیک صحافت ، صحافت نہیں بلکہ ایک جنگ کہلائی جاتی ہے جس میں پاکستان کے خلاف کسی بھی خبر کو نمک مرچ لگا کر پیش کرنے سے ان کے فروعی مفادات کی تکمیل ہوتی ہے۔بھارت کی سپریم کورٹ بھی بھارتی صحافت کے طرز اسلوب سے بیزار ہے یہی وجہ ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے سخت ریمارکس دیئے۔
بھارت کے مقابلے میںپاکستان کے صحافتی اداروں کی پالیسیاں ملکی سیاست تک محدود ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی سیاست میں ہیجان خیزی اور سنسنی پیدا کرنے میں بعض میڈیا ہائوسزکے کردار موضوع بحث بن جاتے ہیں۔سنیئر صحافتی حلقے بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ پاکستانی میڈیا کا ایک متفقہ ضابطہ اخلاق پر عمل پیرا ہونا ناگزیر ہوچکا ہے۔آج کوئی بھی ناظر کسی بھی نیوز چینل کے حوالے سے آنکھ بند کر کے رائے دے سکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی ا لیکڑونک میڈیا میں یہ چلن آنکلا ہے کہ ریٹنگ کے لئے مصنوعی سنسنی پیدا کی جاتی ہے اور اس کے مضمرات سے واقف ہونے کے باوجود ملکی داخلی معاملات کو متنازع بحث بنا دیا جاتا ہے۔پاکستان کی سیاست میں عدم برداشت کے رواج کے سبب سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے لب و لہجے اور بغیر ثبوت الزامات عائد کرنے کی روش خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ بعض نیوز چینل فیصلہ ساز بنے ہوئے ہیں ۔ اخلاقی حدود سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ زبان و بیاں میں تہذیبی اقدار کو فراموش کردیا جاتا ہے۔ اشتعال انگیزی اور تصادم کی مسابقتی روش نے شفاف صحافت کا جنازہ نکال دیا ہے۔بیشتر میڈیا ہائوسز کی جارحانہ و جانبدارنہ روش عوام میں سیاسی عدم برداشت کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔
ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ اگر کسی بھی حساس معاملے پر با حیثیت صحافی اظہار کیا جائے تو اُس میں مبالغہ آرائی نہ ہو بلکہ اعداد و شمار و آرا مصدقہ ہوں، جن کے حوالے سے بتایا جارہا ہو۔ عمومی طور پر یہ روش بن چکی ہے کہ خود نمائی اور خبر کو معتبر بنانے کے لئے غیر مصدقہ طرز عمل اختیار کیا جاتا ہے جس سے ادارے کی ساکھ متاثر ہونے کا احتمال رہتا ہے۔ میری ذاتی رائے یہی ہے کہ تجزیوں میں غیر جانبداری کا عنصر قائم رکھنا اولین ترجیح ہو تو درست اعداد و شمار و بیانیہ مصدقہ ذرائع سے لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔بعض عناصر اس عمل کو درست نہیں سمجھتے اور حسد کی تنگ نظری کے سبب ایسے مواد کونا پسند کرتے ہیں اور بے سبب چغل خوری کے مریض بن جاتے ہیں۔صحافتی ادارے کو ملکی مفاد میں حساس موضاعات پر مصدقہ و معتبر رکھنا ضروری سمجھتا ہوں ۔اظہاریہ ایک جداگانہ رائے کہلائی جاتی ہے جس میں کسی بھی ادارے کا کسی لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ لیکن جب کوئی صحافی باقاعدہ کسی ادارے کے ساتھ منسلک ہوتا ہے تو اس کی ذاتی خواہشات ، ترجیحات اور مفادات پس پشت چلے جانا چاہیے۔ذاتی تجربہ ہے کہ جب بھی کسی بھی ملک کی متنازع پالیسی کے حوالے سے حساس موضاعات کو زیر بحث لایا گیا تو تنقید کا ایک سمندر اتر آتا ہے۔ فون کال ، میسجز ، واٹس ایپ اور ای میلز پر مخالفین کے تند و تیز رویہ اور مخصوص جذباتی وابستگیوں کی وجہ سے سخت دبائو میں لانے کے لئے دہمکیاں دینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ اس صورتحال میں تحمل کے ساتھ ان کے سامنے ان کے اعتراضات کے جوابات کو با احسن دیا جاتا ہے جس پر بغیر سوچے سمجھے جذبات سے مغلوب ہوکر چڑھائی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ راقم کے ساتھ متعدد ایسے واقعات پیش آچکے ہیں ۔ اس قسم کی صورتحال کو وہی صحافی زیادہ بخوبی سمجھ سکتا ہے جسے کسی کالعدم جماعت ، تنظیمیا ملک دشمن عناصر یا مخالفین کی جانب سے دہمکیاں مل چکی ہوں اور وہ خطرات میں مسلسل گھیرا رہتا ہو۔ میرے نزدیک صحافت میں غیر جانبدار ہونا ایمان کا جز ہے اس لئے صبر و تحمل کے ساتھ تمام حوالوں کو مصدقہ و معتبر ثابت کرنا ترجیح ہوتی ہے ، لیکن لاجواب ہونے والے تنقید ی عناصر ، دیگر معاملات پر قلم اٹھانے کا کہہ کر خاموش رہنے کی دہمکی دیتے ہیں۔ اگر با حیثیت صحافی ہم کسی جذبات سے مغلوب سیاست دان کے بیان کو اُسی کے انداز میں جاری یا شائع کردیں تو اخلاقی پسماندگی میں اپنا حصہ ڈال دیتے ہیں۔آف دی ریکارڈ ان گنت معاملات پر ذرائع سے گفتگو ہوتی ہیں لیکن انہیں ریکارڈ کا حصہ اس لئے نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ کسی بھی معاملے کو سمجھنے کے لئے تبادلہ خیال ضروری ہوتا ہے۔ اس سے اہم معاملات کو سمجھنے اور ایسے سہل انداز میں پیش کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
جہان پاکستان ، ملک کے دیگر اخبارات سے منفرد اور اپنی ذمے دارنہ رپورٹنگ کی وجہ سے خصوصی مقام رکھتا ہے۔ عالمی عدالت انصاف میں کل بھوشن یادو مقدمے میں روزنامہ جہان پاکستان کو بطور شہادت پیش کرنا اور عالمی فورم میں روزنامہ جہان پاکستان کا تذکرہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ روزنامہ جہان پاکستان کی جانب سے حساس موضوعات اور ملکی و غیر ملکی امور پر دیا جانے والا مواد معتبر اور اس قدر اہمیت کا حامل ہے جس میں مبالغہ آرائی یا غیر مصدقہ ذرائع کے بجائے صحافت کے اصولوں کے ساتھ ساتھ ملکی مفادات و سا لمیت کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔روزنامہ جہان پاکستان نے بہت کم وقت میں اپنی بڑی جگہ بنائی ہے۔ مثبت اور غیر جانبدارنہ پالیسی کے سبب موقر اداروں و سفارت خانوں میں قدر و منزلت کو چھو لینا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ یہ مقام سفارش سے نہیں بلکہ سخت محنت اور دبائو کے بعد حاصل ہوا ہے ۔صرف چند برسوں میں کئی عشروں سے جاری اخبارات میں اپنا مقام بنانے کی وجہ ادارے کی ٹھوس و مربوط پالیسی ہے۔راقم دیگر اخبارات یا ذرائع ابلاغ کو ہرگز کمتر یا غیر معتبر ثابت نہیں کرنا چاہتا ۔ لیکن مقصود یہ ہے کہ صحافت سے وابستہ تمام صحافی ملکی مفاد و سا لمیت کے ساتھ ساتھ ادارے کی مشکلات کو بھی مد نظر رکھیں۔
ملکی سیاست میں جس قسم کا تعفن اٹھا ہوا ہے اس سے ہماری نوجوان نسل متاثر ہو رہی ہے۔ ہم آنے والی نسل کیلئے تاریخ مرتب کررہے ہیں ۔ ہمیں زرد صحافت کی مذمت اس لئے کرنا ہوگی کیونکہ یہ انتہائی مقدس پیشہ ہے جس میں قلم کی حرمت کی قسم رب کائنات نے خود اٹھائی ہے۔ قلم کے درست استعمال سے ہم قوم کی درست سمت کا تعین اور ملک دشمن عناصر کی سازشوں کو بے نقاب کرسکتے ہیں۔سنسنی ، جانب دارنہ وابستگی اور فروعی مفادات کے لئے صحافتی اداروں و افراد کا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روش کا خمیازہ سب کو یکساں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان میں قلم کو مکمل آزادی اسی لئے نہیں ہے کیونکہ عدم برداشت کا رویہ ہم سب میں سریت کرگیا ہے۔ اگر ہم اپنی ذات کو لیکر یہ سوچ لیں کہ حسد ، طنز و تنقید سے کسی کی صلاحیتوں کو کند کیا جاسکتا ہے تو وہ دراصل سخت غلط فہمی و خود نمائی کے مرض میں مبتلا ہے۔ حسد و تنگ نظری میں مبتلا کسی بھی فرد کو زمینی حقائق سے آشنا ہونا ضروری ہے۔ یہی رویہ ادارے کی کامیاب پالیسی کی بنیاد بھی بنتاہے اور ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہونے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ ہمیں ذاتی عناد سے گریز کی راہ اپنا کریہ سمجھنا ہوگا کہ ہم صحافی ہیں ۔ سیاسی نہیں ، اگر کسی نے سیاسی بننا ہے تو پھر وہ صحافت کو چھوڑ کر سیاسی پارٹی میں چلا جائے یا کوئی نئی سیاسی جماعت بنا لے تو وہ زیادہ بہتر ہے۔