تحریر: طارق حسین بٹ پاکستانی سیاست میں ہیجان انگیزی ہمیشہ سے بڑی اہم رہی ہے۔ ملک کی اکثریتی آبادی تعلیم سے محرومی اور جاگیر داروں کے شکنجے میں جکڑے ہونے کی وجہ سے اس ہیجان انگیزی کو شہ دیتی ہے۔ کمال یہ ہے کہ وہ اپنے حقوق کے ادراک سے بھی محروم بھی رہتی ہے اور اس کا کھلے عام اظہار بھی نہیں کرسکتی کیونکہ اس پر جا گیرداروں کا سخت دبائو ہوتا ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں انتخابی دھاندلیوں کی ایک طویل تاریخ ہے کیونکہ طاقتور حلقے اور حکمران عوامی مینڈیٹ کو اپنی طاقت اور چالاکیوں سے چرا لیتے ہیں۔
عدلیہ کی آزادی کی تحریک کے بعد یہ امید بندھی تھی کہ شائد اس دفعہ کہانی مختلف ہو گی اور ٢٠١٣ کے انتخابات شفاف، آزادانہ اور منصفانہ ہوں گئے لیکن افسوس ایسا کچھ نہ ہوسکا کیونکہ عدلیہ بھی اپنے فرائض کی بجا آوری میں ناکام رہی۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان انتخابات میں عدلیہ بھی دھاندلی کا اہم کردار بن کر سامنے آئی اور اس کے ریٹرننگ آفیسرز عوامی غیض و غضب کا نشانہ بنے تو بے جا نہ ہوگا ۔ ریٹرننگ آفیسر زکے بارے میں یہ تاثر ابھرا کہ وہی اس دھاندلی کا اصلی منبہ ہیں اور انھوں نے ہی پورے انتخا بی نظام کو متنازعہ بنایاتھا۔ ان انتخابات کے بارے میں متفقہ را ئے ہے کہ یہ انتخا بات پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ متنازعہ انتخابات تھے اورایک منصوبے کے تحت عوامی مینڈیٹ کو چرا یا گیا تھا۔ملک کی ساری جماعتوں نے ان انتخابات میں دھاندکی کا رونارویا تھا لیکن ستم ظریفی کی انتہا تو دیکھئے کہ پھر بھی ان انتخابات کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلا ئی گئی کیونکہ ملک کے سارے اہم سیاستدان کسی نہ کسی انداز میں شریکِ اقتدار بنا لئے گئے۔اقتدار میں حصہ مل جائے تو پھر دھاندلی کا شور کیوں مچایا جائے کیونکہ مقصد توآخرِ کار اقتدار کا حصول ہی ہوتا ہے۔
عوام اپنے قائدین کی اس طرح کی قلا بازیوں پر بر انگیختہ ہیں لیکن ان کے ہاتھ میں بھی کچھ نہیں ہے کیونکہ حکمران طبقوں نے گٹھ جوڑ کر کے عوام کو اپنا غلام بنائے رکھنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔مک مکائو کی اس پالیسی نے عوام کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ کرپشن اور ناا نصافی نے پورے ملک کو اپنی گرفت میں دبوچ رکھا ہے ۔ جس میں عوام کے لئے سانس لینا بھی دشوار ہو گیا ہے ۔عوام نا انصافی اور کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں کیونکہ پورا ملک اس وبا کی وجہ سے اخلاقی قدروں سے محروم ہوتا جا رہا ہے اور طبقاتی تقسیم گہری ہوتی جا رہی ہے۔اسی طبقاتی تقسیم اور انتخا بی دھاندلی کے خلاف پاکستان تحریکِ انصاف نے احتجاج کا اعلان کیا۔اس نے حکومت سے چار مخصوص حلقوں کو کھولنے کی درخواست کی تا کہ یہ اندازہ ہو سکے کہ انتخا بات میں کتنی دھاندلی ہوئی ہے لیکن حکومت نے تحریکِ انصاف کی بات سننے سے انکار کر دیا جس کے بعد تحریکِ انصاف کے پاس لانگ مارچ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔لیکن اس لانگ مارچ میں اس وقت مزید شدت پیدا ہو گئی جب عوامی تحریک کے قائد علامہ طاہرالقادری نے بھی انقلاب کا نعرہ لگا کر اس لانگ مارچ کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔وہ انقلاب کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ٢٣ جون کو پاکستان تشریف لائے لیکن ان کی آمد سے قبل ١٧ جون کو پنجاب حکومت نے ماڈل ٹا ئون اپریشن کر کے ١٤ افراد کو شہید اور سو سے زیادہ افراد کو زخمی کر دیا جس سے اس لانگ مارچ میں بے گناہوں کا لہو بھی شامل ہو گیا۔یہ سچ ہے کہ تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک نے ایک ہی دن لانگ مارچ کا آغاز کیا لیکن دونوں جلوس علیحدہ علیحدہ لاہور سے نکلے اور ٣٦ گھنٹو ں کی طویل مسافت کے بعد اسلام آباد پہنچے۔ان لانگ مارچز کو روکنے کیلئے حکو،ت نے جس طرح کنٹینروں کا استعمال کیا وہ ہر شخص کے علم میں ہے لیکن تمام حکومتی ہتھکنڈوں کے باوجود یہ دونوں جلوس اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور انھوں نے دھرنوں کی شکل اختیار کر لی ۔٧٠ دنوں تک انتہائی استقامت کا مظاہرہ کر کے ن دھرنوں نے نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے جس کی توقع عوام کو بالکل نہیں تھی۔انھیں یقین نہیں تھا کہ یہ دھرنے عالمی ریکارڈ قائم کریں گئے اور اپنے مطالبات سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیں گئے۔عوام نے انتہائی نا مساعد حا لات میں اپنے لہو سے جس طرح نئی تاریخ رقم کی تھی اس پر ہر محبِ وطن پاکستانی کو ناز ہے۔،۔
PTI
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عوامی تحریک تنظیمی اور نظریاتی لحاظ سے بڑی مضبوط جماعت ہے کیونکہ اس کے کارکن اپنے قائد کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔اس سے قبل جنوری ٢٠١٣ کے لانگ مارچ میں عوامی تحریک اپنی طاقت کا مظاہرہ کر چکی تھی لہذا اس لانگ مارچ میں عوامی تحریک کی شمولیت تحریکِ انصاف کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں تھی کیونکہ تحریکِ انصاف ایک ایسی جماعت ہے جس میں اپر مڈل کلاس کی اکثریت شامل ہے جس میں وہ اس طرح کے افعال کا مظاہرہ نہیں کر سکتے جو لوئر مڈل کلاس اور محروم طبقات سے سر زد ہوتے ہیں۔اپر مڈل کلاس توڑ پھوڑ اور ہلڑ بازی کی سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتی بلکہ پر امن انداز سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتی ہے لیکن بد قسمتی سے اس طرح کے ا حتجاج کو پاکستان میں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔لانگ مارچ میں عوامی تحریک کی شرکت نے تحریکِ انصاف کی صفوں میں خوشی کی لہر دوڑا دی تھی اور انھیں یہ یقین ہو گیا کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو کر لوٹیں گئے۔یہ دھرنا اتنا طاقتور تھا کہ حکومت کے اوسان خطا ہو گئے اور اسے یہ خدشہ محسوس ہونے لگا کہ اس کی حکومت برخاست کر دی جائیگی لہذا حکومت نے پارلیمنٹ کی دوسری جماعتوں سے دستِ تعاون کی درخواست کی ۔حکومت کی اس درخواست پر پی پی پی ،جمعیت العلمائے اسلام ،پختونخواہ ملی پارٹی اور کچھ علاقائی جماعتوں نے حکومت کا ساتھ دیا اور اسے جمہوریت بچانے کا نام دیا۔اس لانگ مارچ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں بلند و بانگ دعوے کئے گئے تھے اور حکومت کی بر خاستگی تک اسلام آبادسے واپس نہ آنے کا علان کیا گیا تھا۔ڈاکٹر طاہر القادری نے تو یہاں تک اعلان کر دیا تھا کہ اگر ہم دونوں میں سے کوئی لیڈر (عمران خان اور طاہرا لقادری) تحریک کی کامیابی، میاں محمد نواز شریف کے استعفے اور سانحہ ماڈل ٹائون کے قاتلوں کی گرفتاری کے بغیر واپس لوٹنے کی کوشش کرے تو اسے قتل کر دیا جائے تا کہ دوسرے عبرت حاصل کریں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دھرنے میں آندھی ،طوفان،گرمی سردی اور بارش میں بھی عوام نے ہلنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ تبدیلی چاہتے تھے ۔ان کی ثابت قدمی اس بات کی دلیل تھی کہ پاکستانی عوام موجودہ کر پٹ نظام سے بیزار ہیں اور اسے ہر قیمت پر بدلنا چاہتے ہیں۔تبدیلی اور انقلاب کے نعروں نے عوام کے اندر نئی امیدوں کے چراغ روشن کئے تھے ۔وہ ان دھرنوں سے قائد کا پاکستان دیکھ رہے تھے۔
وہ ایسا پاکستان دیکھ رہے تھے جس میں سب کے ساتھ انصا ف ہو گا اورکرپشن کا ہمیشہ کیلئے خا تمہ ہو جائیگا۔ ڈا کٹر طاہرالقادری نے تو اپنا کفن بھی سلوا لیا تھا کیونکہ وہ انقلاب کی کامیابی کے بغیر واپس نہیں جا ناچاہتے تھے ۔٧٠ دنوں تک دونوں جماعتوں کے درمیان باہمی اتحاد کی یہ فضا قائم رہی لیکن پھر ٢١ اکتوبر کو ڈا کٹر طاہرالقادری نے اسلام آباد سے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر کے سب کو مبہوت کر دیا۔عوام کی بات تو ایک طرف رہی عوامی تحریک کے اتحادی بھی ڈاکٹر طاہرالقادری کے اس بے وقت کے فیصلے سے سخت نالاں ہو گئے تبھی تو ان کے ہری پور کے جلسے میں کسی بھی اتحادی نے شرکت نہیں کی تھی کیونکہ اب وہ وقت آ پہنچا تھا جس کی بناء پر اس طرح کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔تحریک ایک خاص مقام پر پہنچ جائے تو پھر بہت سے سوال غیر اہم ہو جاتے ہیں اور وہاں پر ڈٹ جانا ہی وقت کا تقاضہ ہوتا ہے۔جو قائد وقت کی آواز کو سننے سے محروم ہو جاتا ہے وہ وقت کی دھول میں گم ہو جاتا ہے۔اگر سرحد پر کھڑا فوجی موت کے خوف اور دوسری موسمی سختیوں سے گھبرا کر محاذ سے بھاگ کھڑا ہو تو اسے بھگوڑا کہہ کر اس کا کورٹ مارشل کیا جاتا ہے۔اتنے طویل ساتھ کے بعد یوں دھرنا چھوڑ کر اٹھ جانا عمران خان کی پیٹھ میں ایسا خنجر گھونپا گیاجس سے پوری تحریک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔اس فیصلے کی بہت سی توجیہات پیش کی جا سکتی ہیں لیکن عین وقت پر چھوڑ کر چلے جانے کی کوئی توجیہہ نہیں ہوتی بلکہ اسے غداری سے تعبیر کیا جاتا ہے اور غداری کی سزا موت ہوتی ہے۔ڈاکٹر طاہرالقادری کے اس فعل نے جس طرح لاکھوں انسانوںکی خواہشات کا خون کیا اور انھیں دھوکہ دیا اس پر وہ سزا کے مستحق ہیں اور اس سزا کا تعین انھوں نے خود ہی کر رکھا ہے۔،۔