ریاستِ مدینہ کا نعرہ لگانے والے وزیرِاعظم کا تو تمامتر سہولیات کے باوجود 2 لاکھ روپے ماہانہ میں گزارہ نہیں ہوتا لیکن 14,15 ہزار روپے ماہانہ پینشن پانے والا بوڑھا بیمارحکمرانوں کے نزدیک نہ صرف خودعیاشی سے گزربسر کر رہاہے بلکہ لواحقین کا پیٹ بھی پال رہا ہے۔ اِسی لیے تو ریاستِ مدینہ کے حاکم کو اُس کی پینشن بڑھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ ایک کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں کی بات تو چھوڑیں کہ عقیل وفہیم اصحاب نے شیخ چِلی جیسے منصوبوں پر کبھی اعتبارہی نہیں کیالیکن یہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ تاریخِ پاکستان کی سب سے زیادہ مہنگائی کے دنوں میں سرکاری ملازموں اور پینشن پانے والوں کو یوں ”ٹھینگا” دکھا دیا جائے گا۔ خیال یہی تھا کہ مجوزہ ریاستِ مدینہ کے حکمران اِس بجٹ میں کم از کم اتنا ریلیف ضرور دیں گے کہ سانس کی ڈوری بندھی رہے لیکن ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا”۔چودہ صدیاں پہلے کی ریاستِ مدینہ کا حاکم تو اِس پر بھی لرزہ بَراندام کہ اگردریائے فرات کے کنارے کوئی کُتا بھی مر گیا تو روزِقیامت اُس کی پُرسش ہوگی لیکن یوٹرن پر فخر کرنے والے حاکم کے نزدیک مفلس ونادارکیڑوںمکوڑوں سے بھی بدتر۔ جب وہ مفلسوں کی ہمدردی میں ٹسوے بہاتے ہیںتوحیرت ہوتی ہے کہ قول وفعل میں اتنا تضاد؟۔ تحقیق کہ روزِمحشر پُرسش ہوگی اور بڑی سخت ہوگی کہ اُس نے ریاستِ مدینہ کا نعرہ لگایا ضرور لیکن یہاں بھی یوٹرن لے لیا۔ پُرسش تو خیر اُن کی بھی ہوگی جنہوں نے اِسے مسلط کرکے ملک کو عشروں پیچھے دھکیل دیا۔ مانا کہ ہر سلیکشن میں اُن کا ہاتھ لیکن ایسی سلیکشن؟؟؟؟۔۔۔۔
آج ہمارا موضوع پٹرول مافیاہے نہ چینی مافیا، آٹا مافیا ہے نہ بجلی مافیا، ہمارا موضوع پینشنرز ہیںجن کے ساتھ ایسا ”ہَتھ” ہوا کہ عقل حیراں اور وہ بھی اُس وقت جب باربار یہ تلقین کی جا رہی ہے کہ کوروناوائرس سے بزرگوں کو بچاؤ کہ سب سے زیادہ اُنہی پر اثر ہوتاہے۔ ہوا یوں کہ ہم نے اپنے موبائل اکاؤنٹ سے کچھ پیسے ٹرانسفر کرنے چاہے تو میسیج آگیا کہ ہمارے اکاؤنٹ پر ”سپیشل کنڈیشن” لگادی گئی ہے۔ حیرت ہوئی کہ ایسا کیونکر ہوا۔ فوراََ بینک کی ہیلپ لائین سے رجوع کیاتو بینک کے نمائندے نے سوال کیا کہ ہمارا ”پینشنراکاؤنٹ” تو نہیں؟۔ ہم نے ہاں میں جواب دیا تو اُس نے کہا کہ برانچ سے رجوع کریں۔ برانچ میں پہنچے تو بینک کے باہر طویل قطار اور تقریباََسبھی پینشنر۔ عقدہ یہ وا ہوا کہ بینک کو ہمارے ”زندہ ہونے” کا ثبوت چاہیے۔ اِس سے پہلے بینک کی ہمیشہ یہی روٹین کہ ”لائف سرٹیفیکیٹ” کا میسیج آتا اور ہم سرٹیفیکیٹ جمع کروا دیتے لیکن اِس دفعہ پینشن توہمارے اکاؤنٹ میں آگئی لیکن اکاؤنٹ بند بھی کر دیاگیا۔ گویا ہم اپنے موبائل اکاؤنٹ پر موجود بیلنس دیکھ تو سکتے ہیں مگر استعمال نہیں کرسکتے۔ اِسے کہتے ہیں ”تھو! انگور کھٹے ہیں”۔ شاید بینک والوں نے سوچا ہوگا کہ جب بھی اِن سے سرٹیفیکیٹ طلب کیا جاتا ہے، یہ فوراََ جمع کروا دیتے ہیں اِس لیے چلواب اِنہیں بتائے بغیر ”چَسکا” لیتے ہیں۔
طُرفہ تماشا یہ کہ ہم اکاؤنٹ میں موجود اُس رقم سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے جس کا پینشن سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے میاں کا بھی پینشن اکاؤنٹ ہے جس میں ہر ماہ لاکھوں کی ٹرانزیکشن ہوتی ہے، اب وہ بھی بند ہو گیا ہے۔ ہمارے میاں کا پارہ آسمانوں پر ہے اور سارا غُصہ گھر والوں پر نکل رہاہے۔ کوروناوائرس کی وجہ سے وہ پچھلے تین ماہ سے ”مراقبے” میں ہیں اور گھر سے نکلنا تو درکنار، وہ اپنے کمرے سے بھی نہیں نکلتے پھر بھی بہ امرمجبوری وہ اپنے آپ کو ”لپیٹ لپاٹ” کر2 دفعہ بینک جا چکے ہیں لیکن بینک کے سامنے طویل قطار دیکھ کر واپس آجاتے ہیں۔
ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے ۔ یہ پینشن تو محض ”بالائی آمدن” ہے جس کی ہم نے کبھی پرواہ نہیں کی۔ ہم ہمیشہ اپنے اے ٹی ایم کارڈ سے ہی خریداری کرتے ہیں کہ محفوظ ترین طریقہ یہی ہے۔ یوٹیلیٹی بِلز بھی گھر بیٹھے اپنے اکاؤنٹ سے موبائل کے ذریعے جمع کرواتے ہیں۔ کوروناوائرس کی وجہ سے ہماری شاپنگ بھی ”آن لائین” ہی ہوتی ہے اِس لیے کبھی گھر میں ”کیش” رکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ اِس کے باوجود کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں کچھ رقم گھر میں موجود ہوتی ہے۔ ہم تو بینک کلیئرنس ہونے تک گزارہ کر لیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ جن کی زندگی کا دارومدار ہی پینشن پر ہے، وہ زندگی کی گاڑی کیسے کھینچیں گے۔ ہم نے اِدھراُدھر سے پوچھا تو پتہ چلا کہ اِس دفعہ صرف سرٹیفیکیٹ ہی جمع نہیں کروانا ہوگا بلکہ بینک میں جا کر بینک کے نمائندے کے سامنے ایک فارم پر دستخط بھی کرنے ہوںگے۔ کوروناوائرس کے دنوں میں اِس سے بڑا ”رِسک” اور کیا ہو سکتاہے؟۔ شاید حکمرانوں نے سوچا ہوگا کہ یہ ”بابے” ویسے تو مرتے نہیں، چلو ایسے ہی سہی۔۔۔۔ اِسے کہتے ہیں ریاستِ مدینہ۔ ہمارا پروگرام تو ابھی اور دِل کے پھپھولے پھوڑنے کا تھا لیکن ٹی وی پر ”بریکنگ نیوز” کا شور مچ گیا۔ نیوز واقعی بریکنگ تھی حالانکہ ہمارا میڈیا ایسی بریکنگ نیوزبھی دیتاہے جنہیں سُن کر ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔یہ نیوز احتساب عدالت کے جج ارشدملک کے ویڈیوسکینڈل پر تھی جس میںلاہورہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی نے چیف جسٹس محمدقاسم خاں کی زیرِصدارت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو ویڈیو سکینڈل کیس میں ملازمت سے برطرف کر دیا۔
انتظامی کمیٹی میںلاہورہائیکورٹ کے 7سینئرججز بھی شریک تھے جنہوں نے متفقہ طور پر احتساب عدالت کے جج ارشدملک کو برطرف کرنے کی منظوری دی۔ 6 جولائی 2019ء کو مریم نوازنے ایک پُرہجوم پریس کانفرنس میںجج ارشدملک کی مبینہ ویڈیوز جاری کیں۔ ویڈیوزکے مطابق میاں نوازشریف کو دباؤ پر سزا سنائی گئی۔ 7 جولائی کوارشدملک نے اپنا تردیدی بیان جاری کیا جس میں اُس کا کہناتھا کہ اُس پر کوئی دباؤ نہیںتھا۔ 12 جولائی کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے ارشدملک کو احتساب عدالت سے فارغ کردیا۔ 16 جولائی کو ویڈیوسکینڈل کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی جس میں اُس وقت کے چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ جج ارشدملک نے جوکچھ کہا وہ انتہائی غیرمعمولی ہے۔ 23 اگست کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیاکہ جج ارشدملک کی 7 جولائی کی پریس ریلیز اور 11 جولائی کا بیانِ حلفی اُن کے خلاف فردِجرم ہے لیکن اگر سپریم کورٹ کوئی فیصلہ دے گی تو ہائیکورٹ میں زیرِسماعت کیس پر اثر پڑے گا۔ 3 جولائی 2020ء کو لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی نے احتساب عدالت کے جج ارشدملک کو اُس کے عہدے سے بَرطرف کر دیا۔
احتساب عدالتوں سے میاں نوازشریف کو ملنے والی سزاؤں کے فیصلے پہلے دن سے ہی متنازع رہے ہیں۔ اب ویڈیوسکینڈل کیس میں ملوث جج ارشدملک کو اُس کے عہدے سے برطرف کیے جانے کے بعد اِن فیصلوں پر سوالیہ نشان لگ گیاہے۔ ارشدملک نے العزیزیہ اسٹیل مِل ریفرنس میں میاں نوازشریف کو 7 سال قید اور پونے 4 ارب روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔جب یہ ثابت ہوگیا کہ جج ارشدملک نے دباؤ کے تحت سزاسنائی تو پھر میاں نوازشریف کے خلاف کیس بھی متنازع ہوگیا۔ مریم نوازنے یہ ٹویٹ کیا ”انصاف کا تقاضہ ہے کہ داغدار جج کے داغدار فیصلوںکو بھی پھاڑ پھینکا جائے”۔ یہ فیصلہ تو بہرحال اعلیٰ عدالتوں نے ہی کرناہے کہ میاں نوازشریف کو ملنے والی سزا متنازع ہے یا نہیں۔ حقیقت مگر یہی کہ عدالتوں کو غیرجانبداری سے فیصلہ کرنا ہوتاہے جو اِس مقدمے میں سوالیہ نشان بن گیاہے۔ سپریم کورٹ بھی یہ کہہ چکی کہ اگر میاں نوازشریف یہ ویڈیو لے کر عدالت میں جائیںتو اُنہیں ریلیف مل سکتاہے۔ اِس سے قطع نظر کہ میاں نوازشریف کوریلیف ملتاہے کہ نہیں، ہمارے نظامِ انصاف پربھی سوالیہ نشان لگ گیاہے۔ حقیقت یہی کہ ہمیںہمارے نظامِ انصاف پر مکمل اعتمادہے لیکن کبھی کبھی ایک مچھلی پورے تالاب کو گندا کر دیتی ہے۔ پہلے عدالتوں کی طرف سے دیا جانے والا ”نظریۂ ضرورت” اور اب دباؤ میں آکردیا جانے والا فیصلہ بہرحال ہمارے نظامِ انصاف پر سوالیہ نشان ہے جس کا حل ہماری اعلیٰ ترین عدالت کو تلاش کرنا ہوگا۔