امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی محکمہ دفاع “پینٹاگان” نے ہفتے کی شام کہا ہے کہ یوکرین کے زمینی جزیرے پر روسیوں کے خلاف یوکرین کی مزاحمتی فورسز میں امریکا کی شرکت کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
پینٹاگان کے ایک سینیر اہلکار نے تصدیق کی تھی کہ روس یوکرین میں 50 فیصد سے زیادہ افواج کا استعمال کر رہا ہے جو اس نے سرحد پر جمع کی ہیں اور یوکرین کی فوج کی مضبوط مزاحمت سے روسی فوج “تیزی سے مایوس” ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا تخمینہ ہے کہ 50 فیصد سے زیادہ طاقت جو (روسی صدر ولادیمیر) پوتین نے یوکرین کے خلاف جمع کی ہے۔ اب یوکرین کے اندر استعمال ہو رہی ہے۔ امریکی اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی۔
اہلکار نے روسی افواج کی تعداد کی وضاحت نہیں کی جو یوکرین پہنچی ہیں، لیکن امریکا نے اندازہ لگایا ہے کہ یوکرین کے قریب تعینات روسی افواج کی کل تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے۔
اہلکار نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ روسی رہ نماؤں نے حملے کے دوران اپنی افواج کو کافی ایندھن اور بنیادی لاجسٹک مدد فراہم کرنے کا منصوبہ نہیں بنایا تھا اور اب وہ اسے ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اب بھی یوکرین کی مزاحمت کے اشارے مل رہے ہیں جو جاری رہ سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ روسی گذشتہ 24 گھنٹوں میں خاص طور پر شمالی یوکرین میں اپنی رفتار کھو جانے سے زیادہ مایوس ہیں۔
اہلکار نے نشاندہی کی کہ ہفتے کے روز تک روسی افواج نے یوکرین کے کسی شہر پر قبضہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی انہوں نے یوکرین کی فضائی حدود کو کنٹرول کیا تھا۔
مغربی ممالک بالخصوص امریکا نے روسی حملے کے آغاز سے ہی یوکرین کو خاص طور پر ہتھیاروں اور گولہ بارود کے میدان میں مدد فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
اہلکار نے زور دے کر کہا کہ روسی فوجی یوکرین کی ٹھوس مزاحمت سے مایوس ہیں جس نے ان کی پیش قدمی کو متاثر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مشاہدات کی بنیاد پر یہ مزاحمت روسیوں کی توقعات سے زیادہ تھی۔
پینٹاگان کے اہلکار کے تبصرے روسی وزیر دفاع کے اعلان سے چند منٹ پہلے سامنے آئے ہیں کہ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تمام یونٹوں کو ہر طرف حملے بڑھانے کا حکم ملا ہے۔
خبر رساں ادارے’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ نے ایک سینییر امریکی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ پیش قدمی کرنے والی روسی افواج ہفتے کے روز تک کیف سے تقریباً 30 کلومیٹر کے فاصلے پر کھڑی تھیں۔ روسی فوجی “سرکاری عناصر” کی ایک غیر متعینہ تعداد دارالحکومت میں داخل ہو چکی تھی۔