تحریر: فرخ شہباز وڑائچ کئی دن تک سوچتا رہا، مگر کچھ لکھ نہ پایا۔ سچ پوچھیں تو ابھی تک سوچ رہا ہوں یہ درندگی تھی۔۔۔یہ حیوانیت تھی۔۔ یا جہالت کے اندھیرے جس میں ہم آگے تو بڑھتے جا رہے ہیں لیکن روشنی کی کوئی راہ دکھائی نہیں پڑتی۔ ایسے میں قائد کی یاد آئی۔ یہ 14 اگست 1947ء کی بات ہے قیام پاکستان کے دن جب متحدہ ہندوستان کے آخری اور آزاد انڈیا کے پہلے گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن نے اپنے خطاب میں یہ توقع ظاہر کی کہ پاکستان میں اقلیتوں (غیر مسلموں) کے ساتھ وہی سلوک ہو گا جیسا کہ ہندوستان کے بادشاہ اکبر اعظم نے کیا تھا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فوراً جواب دیا کہ غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم ہمیں ہمارے پیغمبر عظیم مصلح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی ہے اور یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔
قائد نے اس وقت فرمایا تھا ”اکبر نے غیر مسلموں کے ساتھ جس تحمل اور حسن سلوک کا مظاہرہ کیا تھا وہ کوئی نئی چیز نہ تھی، اس کی بنیاد آج سے 1300ء سال قبل ہمارے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ۖ صرف الفاظ سے نہیں بلکہ مفتوح ہونے والے یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ ان کے مذہب اور عقیدے کے بارے میں انتہائی احترام اور رواداری کے عملی رویے سے ڈال چکے تھے۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ اس ملک میں مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔
یہ حضرت عمر فاروق کا دربار ہے… رئیس خوزستان (ایران) ہرمز’ دربار فاروقی میں قید ہوکر آیا ہے… دربار میں سکوت کا عالم ہے،ہرمز کون ہے جس نے بہت سے مسلمان افسروں کو شہید کیا ہے’ قتل کا مصمم ارادہ ہے’ اچانک قیدی پانی مانگتا ہے اور پانی پینے تک کی امان طلب کرتا ہے’ امان دی جاتی ہے لیکن وہ پانی نہیں پیتا’ رکھ دیتا ہے یا پھینک دیتا ہے’ حاضرین حیران رہ جاتے ہیں’ اگر کوئی اور ہوتا تو دشمن کی اس حرکت سے اور طیش میں آجاتا’ لیکن نہیں نہیںیہ فاروق اعظم ہیں جن کی بہادری کے چرچے، جن کے رعب سے دنیا کانپتی ہے، خلیفہ وقت اپنا ہاتھ روک لیتے ہیں۔ عہد و پیماں کی اس پاسداری کو دیکھ کر ہرمز حیران رہ گیا اور اسی وقت مسلمان ہو گیا۔
Hazrat Umar Farooq
شام میں ایک دفعہ ضرورت پیش آئی کہ ساری مسلمان فوجیں ایک جگہ جمع ہوجائیں اور جن شہروں پر انہوں نے قبضہ کر رکھا ہے انہیں خالی کر دیں۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے حکم کے مطابق مسلمانوں نے یہ شہر خالی کرتے وقت وہ تمام رقم غیر مسلموں کو واپس کردی جو انہوں نے ان سے جزیہ کے طور پر وصول کی تھی۔ کیونکہ اب وہ ان کی حفاظت نہیں کر سکتے تھے اور جزیہ ان کی حفاظت کے بدلے ہی میں لیا جاتاتھا۔ اس سلوک کاان لوگوں پر ایسا اثر ہوا کہ وہ دعائیں کرتے تھے ”خدایا مسلمانوں کو پھر واپس لا۔ شام فتح ہوا تو اسلامی حکومت نے حکم جاری کیاکہ عیسائی لوگ مسلمانوں کی نماز کے وقت ناقوس نہ بجایا کریں اور نہ وہ عام گزرگاہوں میں صلیب نکالا کریں۔ یہ حکم جاری کرنے کامقصد یہ تھاکہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان فساد نہ ہو جائے۔ اس حکم کے جاری ہونے کے بعد عیسائیوں نے اپنے چند نمائندے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں یہ درخواست کرنے کے لیے بھیجے کہ عیسائیوں کو سال میں کم ازکم ایک مرتبہ اپنی عید کے دن صلیب نکالنے کی اجازت دی جائے۔ (یہ صلیب وہ بڑی دھوم دھام کے ساتھ جلوس بنا کر نکلا کرتے تھے۔ ) حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ان کی درخواست خوشی کے ساتھ منظور کر لی۔
اس کانتیجہ یہ ہواکہ عیسائی اسلامی حکومت کے خیر خواہ بن گئے۔حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ غیر مسلموں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے تھے ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ ان لوگوں کے دل جیت لیے جائیں تاکہ وہ اللہ کا سچا دین اسلام قبول کرلیں۔ایک طرف اسلام کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں اقلیتوں نے مسلمانوں کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر دین اسلام اختیار کیا دوسری طرف ہم بادامی باغ میں چند لوگوں کے قبیح عمل کی سزا 200 گھروں کو جلا کر دیتے ہیں۔آپ کوٹ رادھا کشن کا واقعہ دیکھ لیں کیسے زندہ جوڑے کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔مجھے شمع کا چہرہ یاد آیا ہجوم میں سے کچھ لوگوں نے اس کے پیٹ پر ٹھڈے مارے ،کیا وہ کسی کی بیٹی ،کسی کی بہن نہیں تھی۔۔؟کونسا دین آپ کو اس درندگی کا سبق دیتا ہے۔۔؟وہ کونسے حیوان نما انسان تھے ۔۔؟ایسا وحشیانہ سلوک کوئی جانوروں کے ساتھ بھی نہیں کرتا۔ کیسی بے دردی سے دونوں میاں بیوی کو زندہ جلا دیا گیا۔ میں اس سانحے کا ذمہ دار جہالت کو سمجھتا ہوںیہ علم ہی ہے جو حیوان کو انسان بناتا ہے۔کاش کہ ہمارے علماء کراماب بھی آگے بڑھیں، کاش کہ میڈیاریٹنگ کے چکر سے نکل کر اپنا کردار ادا کرے۔کاش کہ آئندہ ایسی درندگی سننے میں نہ آئے۔تنزلیوں کی دلدل مزید گہری ہوتی جا رہی ہے، مگر ہمیں احساس نہیں۔۔استاد محترم عباس تابش یاد آئے، فرماتے ہیں۔۔
گزشتہ امتوں کی انتہا سے ڈر نہیں لگتا یہ کیسے لوگ ہیں جن کو خدا سے ڈر نہیں لگتا