شام (اصل میڈیا ڈیسک) شام میں رواں سال کے وسط میں صدارتی انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے صدر بشارالاسد اپنے زیر انتظام علاقوں میں بھرپور انتخابی مہم چلاتے ہوئے مہم پر پانی کی طرح پیسہ بہا رہے ہیں۔
دوسری طرف اسد رجیم کے زیر کنٹرول علاقوں میں غربت کا عالم یہ ہے کہ عوام کو دو وقت کا کھانا میسر نہیں اور آبادی کی ایک بڑی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی فراہم کردہ اطلاعات سے پتا چلا ہے کہ صدارتی انتخابات کی مہمات ایک ایسے وقت میں جاری ہیں جب دوسری طرف ملک بدترین اقتصادی بحران سے گذر رہا ہے۔ معیشت تباہی سے دوچار ہے اور شہریوں کو بنیادی ضروریات کے حصول میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔
صدارتی مہمات کے دوران شہریوں کے بنیادی مسائل کے حل پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ ملک میں آنے والی سیاسی تبدیلی سے بھی عوام کی بہتری کا راستہ نکلتا دکھائی نہیں دیتا۔
شام میں سنہ 2012ء میں منظور ہونے والے قانون کے مطابق صدارتی انتخابات کو ریفرنڈم میں تبدیل کیا گیا ہے۔عوام کو چند امیدواروں کا چنائو کرنا ہوتا ہے۔ قانون کے تحت صدارت کی مدت کے خاتمے کے دو ماہ بعد دوبارہ ریفرنڈم کی شکل میں انتخابات کرائے جائیں گے۔
ماضی میں بشارالاسد کی طرف سے مخالف امیداروں کو دبانے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں زیادہ لوگ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے۔ انہوں نے صرف ‘ہاں’ یا ‘نہیں’ کے الفاظ پر مشتمل ریفرنڈم کرانے کا قانون منظور کیا۔ انتخابات کے موقعے پر کبھی بھی مبصرین کو انتخابی عمل کی نگرانی کی اجازت نہیں دی گئی۔
اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق شام میں گذشتہ 10 سال سے جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں ملک کی معیشت بدترین تباہی سے دوچار ہوئی ہے اور اس وقت شام کی 87 فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔
سنہ 2010ء میں ہونے والی مردم شماری میں شام کی نصف آبادی 21 ملین افراد پر مشتمل تھی اور آج آبادی کا ایک بڑا حصہ پناہ گزینوں اور مہاجرین پر مشتمل ہے۔