جب معمولات ِ زندگی آرام وآسائش اور وسائل کی فراوانی میں بسر ہوں،دور دور تک زندگی میں مسائل و پریشانیوں کا گزر نہ ہو،آدمی کوروزی روزگار اور ضروریات زندگی کی عدم دستیابی کا مسئلہ بھی درپیش نہ ہو تو ایسی حالت میں غیر متوقع صورتحال جس کا انسان کوفہم وادراک ہی نہ ہو، نہ ہی اُسے کبھی زندگی میں ایسے حالات سے واسطہ پڑا ہو ،اُس کا سٹپٹاجانا ایک قدرتی اَمر ہے، گذشتہ دنوں ہمارے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کو بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کا اُس وقت سامنا کرنا پڑا، جب پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے اُن سے یہ سوال کر لیا کہ ” آپ نے کم سے کم تنخواہیں 12 ہزار روپے ماہانہ مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
آپ اِس تنخواہ میں ایک گھر کا بجٹ بنا کر دکھائیں۔”ظاہر ہے مصائب وآلام میں مبتلا ایک عام پاکستانی کے حالات زندگی کی نمائندگی کرتا یہ چھبتا ہوا سوال، وزیر موصوف کیلئے قطعی غیر متوقع تھا،لہٰذا پہلے تو انہوں نے جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہہ دیا کہ” عوام کو مصیبتیں ہم نے تو نہیں دیں، نہ یہ ہماری وجہ سے آئی ہیں۔” تاہم فوراً ہی انہیں اپنے رویئے کا احساس ہوگیا اور اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے گویا ہوئے”درحقیقت یہ مصیبتیں ماضی کی حکومتوں کی دی ہوئی ہیں ، اِن کو حل کرتے کرتے وقت لگے گا۔
اب کتنا وقت لگے، عوام کی مصیبتیں کب ختم ہونگی ،کب انہیں سکون و آسودگی کا لمحہ میسر آئے گا،اِس حوالے سے کچھ نہیںکہا جاسکتا ،اَمر واقعہ یہ ہے ہر آنے والی حکومت نے مشکلات و پریشانیوں کا رونا رویا اور عوام کے مصائب وآلام کا ذمہ دار پچھلی حکومتوں کو ٹہرایا،محترم وزیر خزانہ نے بھی وہی کیا، اپنی حکومتی کارکردگی کو بہتر بنانے اور کچھ کر دکھانے کے بجائے ساراکا سارا ملبہ گذشتہ حکومت پر ڈال دیا،ساتھ ہی مسائل کے حل کیلئے وہی پرانا راگ بھی الاپ دیاکہ” وقت لگے گا۔”مگر شاید وہ اِس حقیقت سے واقف نہیںکہ کچھ حقیقتیں ایسی ہوتیں ہیںجو معلومات کے اِن گنت ذرائع اور لامحدود وسائل رکھنے کے باوجود ارباب اقتدارکی عالی نسب بارگاہوں پر منکشف نہیں ہوپاتیں،لیکن گلی کوچوں میں حشرات الارض کی طرح رینگتے عوام الناس کم فہم ہونے کے باوجود اِن زمینی حقیقتوں کا پالیتے ہیں،جس طرح ساحل پر کھڑے ہوکر دریا کی طغیانی کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا،بالکل اُسی طرح گلی کوچوں کی دکانوں پر جائے،تپتی دھوپ میں یوٹیلیٹی اسٹور کے باہر لمبی قطار میں گھنٹوں کھڑے ہوئے،اور دھول مٹی میں اَٹے اتوار بازاروں کی خاک چھانے بغیراِس حقیقت کا ادراک کرنا محال ہے کہ مہنگائی کا عفریت کتنا خونخوار ہوچلا ہے اور ایک آدمی کے شب وروز کس کرب واذیت میں گزررہے ہیں۔
محترم وزیر خزانہ کا پیش کردہ وفاقی بجٹ ”اعداد و شمار کا ہیرپھیر” ہے جس کا نتیجہ ”سودوزیاں” کے سوا اور کچھ نہیں،بجٹ غربت، مہنگائی، بیروزگاری کے گرداب میں پھنسے عوام، تنخواہ دار طبقات، مزدوروں، خانہ دار خواتین اور دیگر طبقات زندگی کیلئے مایوسی و نامرادی کا پیغام دیتا نظر آرہا ہے، اِس تناظر میں عوام میں غصے اور اضطراب کی کیفیت کاپیدا ہونا فطری عمل ہے،حالیہ بجٹ میںحکومت نے کم ازکم تنخواہ 12 ہزار روپے مقرر کرنے کا اعلان کیاہے ، لیکن مزدور طبقات اِس اضافے پر خوش نظر نہیں آرہے،اوّل تو اِس معمولی اضافے سے اُن کی معاشی حالت میں کچھ سدھار آنے والا نہیں،دوسرے یہ کہ اصل مسئلہ اِن قوانین پر عملدرآمد کا ہے ، ابھی تک ایسے بہت سے ادارے موجود ہیں ، جہاں گذشتہ سال بڑھائی گئی تنخواہ کا بھی اطلاق نہیں ہوسکا ،یہ وہ ادارے ہیں جو عوام کو حکومت کی طے کردہ کم ازکم اجرت کسی طور بھی دینے کو تیار نہیں ہیں،اِس صورتحال میںبعض مزدور تنظیمیں بجٹ کے اعداد و شمار کے ہیرپھیر کا جائزہ لے کر مزدور طبقات کا مہنگائی کے بوجھ تلے دبنے کا عندیہ دے رہی ہیں ،بجٹ کے حوالے سے پرچون فروشوں کی جانب سے بھی اضطراب کا اظہار کیا جا رہا ہے، جن کے بقول اب گلی محلے کے دکاندار بھی ٹیکس کے جال میں پھنس گئے ہیں اور اُن پر ”سپیشل پروسیجر رولز فار ریٹیلرز” کے نام پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہو گیا ہے، جبکہ خواتین خانہ سر پکڑے بیٹھی ہیں کہ اُن کے گھر کا بجٹ تو پہلے ہی مہنگائی کے سونامی کے باعث قابو میں نہیں آرہا تھا، اب کینولا، سن فلاور ککنگ آئل مہنگا ہونے اور پرچون فروشوں پر عائد ہونیوالے 17 فیصد سیلز ٹیکس کی بنیاد پر اشیائے خوردنی کی دوسری تمام اشیاء کے نرخ بھی آسمان تک جا پہنچنے سے وہ گھریلو اخراجات کیسے پورے کر پائیں گی۔
دوسری طرف طرفہ تماشا یہ ہے کہ بجٹ کی منظوری اور اطلاق یکم جولائی سے ہوگا مگر مہنگائی کا طوفان بجٹ کے اعلان کے ساتھ ہی برپا ہو گیا ہے،جہاںمنافع خور تاجروں نے مصنوعات ذخیرہ کرکے انہیں مہنگے داموں مارکیٹ میں لانے کیلئے اپنی چھریاں کانٹے تیز کرلیے ہیں، وہیں ریٹیلرز اور خوانچہ فروشوں تک نے اشیائے خوردنی، دالوں، سبزیوں، مٹن، بیف، چکن، مشروبات کے نرخ ابھی سے بڑھا دیئے ہیں، اِس صورتحال میں بجٹ میں وزیر خزانہ کے اعلان کردہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے منصوبے کی ابھی سے بھیانک تصویرنظر آرہی ہے،جبکہ آئندہ ماہ بجٹ کے اطلاق کے وقت ماہ رمضان المبارک کا بھی آغاز ہو چکا ہو گا، جس کے دوران مہنگائی عوام کی کیا درگت بنائے گی، یہ تصور کرکے اُن کے ابھی سے پسینے چھوٹ رہے ہیں، جبکہ بجٹ میں تجویز کئے گئے ٹیکس نظام کی بنیاد پر عام آدمی کے استعمال کی اشیاء واشنگ مشین، جوسر، جنریٹر، پنکھے سیلز ٹیکس کی زد میں آکر مہنگے ہو رہے ہیں اور سیمنٹ اور سریا مہنگا کرکے عام آدمی کے اپنے گھر کی تعمیر کے خواب بھی چکناچور کئے جا رہے ہیں،اِس کے برعکس 18 سو سی سی سے بڑی گاڑیوں کو ٹیکسوں کی چھوٹ دے کر سستا کیا جا رہا ہے تو اِس سے اپوزیشن کے اِن الزامات کو ہی تقویت ملے گی کہ ِاس بجٹ کے ذریعے عام آدمی کے بجائے مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات کے مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے،یوں بھی کسی حکومت کا بجٹ جہاں اگلے مالی سال کے حوالے سے تفصیلی پلان کو ظاہر کرتا ہے ،وہاں اِس سے حکومتی معاشی پالیسیوں کی سمت اور موڈ بھی ظاہر ہوتا ہے، بجٹ کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لینے سے حکومتی مالیاتی ماہرین کے مائنڈ سیٹ کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور یہ بھی کہ اُن میں طاقتور طبقات پر ٹیکس لگانے کی کس قدر جرات ہے۔
Inflation
اَمر واقعہ یہ ہے کہ ہر دو چار ہفتوں بعد مہنگائی کا بم عوام پر گرتا اور اُن کی کمر توڑ دیتا ہے، پٹرول کے ساتھ بجلی کی قیمتوں میں بھی ماہانہ بنیادوں پر تبدیلی جاری ہے، تبدیلی کا مطلب ویسے صرف مہنگا ہونا ہی ہے، سستی تو بجلی کبھی نہیں ہوتی، اعدادوشمار کی جادوگری ہمارے بجٹ میں سب سے زیادہ پریشان کن بات ہے، چیزوں کوایسے پرکشش طریقے سے پیش کیا جاتاہے ،جیسے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوں،جبکہ عملی طور پر اِس کے برعکس ہی ہوتا ہے، مثال کے طور پر ہمارے وزیرخزانہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ معاشی ترقی کی شرح 4.1 رہی، دلچسپ بات ہے کہ عالمی سطح کے اقتصادی ادارے اِس بات کو بالکل ہی نہیں مانتے، اُن کے خیال میں یہ شرح 3.3کے قریب ہے ،یہی صورتحال دیگر اعدادوشمار کی ہے، وزیر خزانہ کے بقول فی کس آمدنی کی شرح سنتالیس ڈالر بڑھ گئی اور اب یہ 1386ڈالر ہوگئی،لیکن اِس بات کی کوئی ٹھوس وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ انقلاب کیسے رونما ہوا۔؟ہمارے اقتصادی ماہرین ایسی دل خوش کن تصویر پیش کرتے ہیں کہ لگتا ہے سب انڈیکیٹر ٹھیک ہیں اور کارکردگی بہترین رہی، بعض اوقات تو آدمی حیرت سے سوچتا ہے کہ یہ کس ملک کا نقشہ کھینچا جا رہا ہے اور میں کہاں رہ رہا ہوں۔؟ یہی وہ بات ہے ،جس کی وجہ سے بجٹ کے اعدادوشمار پر لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔
ہمارا ماننا ہے کہ عوام الناس کیلئے بجٹ ایک ایسی بلائے ناگہانی ہے جو قوم پر عذاب کی صورت میں ہر سال نازل ہوتی ہے اور پورا سال منی بجٹ کے بچے جنتی ہے، کبھی بجلی، پٹرول، گیس اور سی این جی کے نرخوں میں اضافے کی صورت میں اور کبھی حکمرانوں کی چہیتے ذخیرہ اندوز، گراں فروش اور مارکیٹ فورس کی من مانی کارروائی کے نتیجے میں۔یہی وجہ ہے کہ چند برسوں سے بجٹ ایک رسمی کارروائی بن کے رہ گیا ہے اور دیکھا یہ گیا کہ عوام بجٹ سے بڑی حد تک لاتعلق ہوگئی ہے، عام آدمی کو اکانومی کے پیچیدہ گورکھ دھندوں کی پہلے ہی سمجھ نہیں آتی تھی، اب پڑھی لکھی مڈل کلاس بھی بیزار ہوچکی ہے،جس کی مختلف وجوہات ہیں، دراصل ایک حقیقی بجٹ کیلئے چند چیزیں لازمی ہوتی ہیں، اُن کے بغیر اِس کے اثرات مرتب نہیں ہوسکتے، مشاہدہ یہ ہے کہ ہر سال بجٹ سے پہلے اخبارات اور ٹی وی چینلزمختلف شعبہ زندگی کے عام آدمیوں سے گفتگو کرتے اور مختلف نوعیت کے سروے کراتے ہیں، اِن تمام میں ایک بات مشترک نظر آتی ہے کہ ملک کا غریب آدمی بجٹ سے بالکل لاتعلق ہوچکا ہے، اُس کی یہ کیفیت کم علمی یا اَن پڑھ ہونے کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ اُسے یہ یقین ہو چلاہے کہ بجٹ خواہ کسی بھی حکومت کا ہو، اُس کیلئے اِس میں کچھ نہیں ہوگا، اُسے پتہ ہے کہ اُس پر تو بوجھ ہی پڑنا ہے اور دو وقت کی روٹی کمانے کیلئے جتنی جدوجہد وہ آج کر رہا ہے، اگلے سال اِس سے بھی زیادہ کرنی پڑے گی، یہ وہ ہولناک حقیقت ہے جس کا ہمارے ارباب اقتدار، اقتصادی ماہرین اور بجٹ سازوں کو ادراک کرنا ہو گا۔