تحریر : سلطان حسین رات کو دیر سے سونے کے باعث ابھی گہری نیند میں ہی تھے کہ ہوم منسٹر کا حکم نامہ ملا کہ جلدی اٹھیں بھائی صاحب آرہے ہیں ساتھ جانا ہے گہری نیند کی وجہ سے یہ بات بڑی ناگوار گزری لیکن پھر جو بات بتائی گئی اس نے ہمارے ہوش ٹھکانے لگا دئیے پتہ چلا کہ جمرود چیک پوسٹ کے قریب خود کش حملے میں ہمارے ایک رشتہ دار کے بیٹے کے جسم وجان کا رشتہ ختم ہو چکا ہے اور جنازے میں جانا ہے۔
مرتے کیا نہ کرتے کے مصدق پھر اٹھنے میں دیر نہیں لگائی جو نوجوان اس خود کش حملے میں اپنے پیاروں کو غم دے گیا تھا وہ بڑا ملنسار اور با اخلاق نوجوان تھا پورا علاقہ اس کے اخلاق کی وجہ سے اس کا گرودہ تھا اس کی منگنی ہو چکی تھی اور اب اس کی شادی کی تیاریاں جاری تھیں وہ نوجوان جو اپنے والدین کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے سپنے آنکھوں میں سجائے ہوئے تھا وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا تھا اس کے خواب اب صرف خواب ہی رہ گئے تھے اس کے والدین جو اس کے بہتر مستقبل کی امید میں جی رہے تھے۔
Victory Sign
اب اسے سفر آخرت پر بھیج رہے تھے اور ہم بھی اسے سفر آخرت پر بھیجنے میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیارہونے لگے لیکن جانے سے پہلے بچوں کے کھانے پینے کا چونکہ انتظام کرکے جانا تھا باہر سے نان لانے کے لیے باہر نکلے اور نانبائی کی دکان پر کھڑے ہوگئے اتنی دیر میں ایک سکول کی وین بے وقت سامنے سے گزری جس میں ایک بہت ہی چھوٹے بچے نے ہاتھ باہر نکال کر وکٹری کا نشان بنا رکھا تھا اور وہ بچہ اپنا ننھا منا ہاتھ دیکھنے والوں کو ہلا رہا تھا پتہ چلا کہ چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی میں دہشتگردوں نے حملہ کر رکھا ہے ایک اور درسگاہ پر حملے سے اے پی ایس کا دکھ یاد آگیا یوں لگا کہ اے پی ایس کی بعد ایک اور دکھ دیکھنا پڑے گا اسی لمحے اس بچے کو دیکھ کر بے اختیار مجھے لگا کہ کہ یہ بچہ کہہ رہا ہو ”ہم ایسی قوم سے ہیں جس کے وہ بچوں سے ڈرتا ہے۔
بڑے دشمن بنے پھرتے ہیں جو بچوں سے لڑتا ہے۔” اور یقینااسی قوم کے بچوں کے لیے ہی شاعر نے کہا ہے کہ ”یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسبان اس کے ” وین میں بیٹھابچہ شاعر کے اس تصور کی باکل درست تصویر پیش کر رہا تھا ”یہ کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ ان حملوں سے والدین کو دکھ نہیں ہوا ہوگا یہ کرب تو ایک فطری امر ہے اس دکھ کو صرف وہی جانتے ہیں اور محسوس کر سکتے ہیں جس پر یہ گزرتا ہے یہ ایک نہ ختم ہونے والا دکھ ہوتا ہے جس سے پہلے اے پی ایس کے والدین گزرے اور اب سانحہ چارسدہ کے والدین گزر رہے ہیں اور نہ صرف ان طلبا کے والدین گزر رہے ہیں بلکہ پوری قوم گزر رہی ہے لیکن حکمران اس کرب کو محسوس نہیں کر رہے۔
16 دسمبر کو جب سانحہ آرمی پبلک سکول رونما ہوا تو پوری قوم کو ایسا شاک پہنچا جیسا 16 دسمبر 1971 کو پہنچا تھا یہ ایک نہ بھولنے والا دکھ تھا اور ہے اس دکھ کے بعد پوری قوم تو متحد ہوگئی لیکن متحد ہونے کا دعوی کرنے والی سیاسی قیادت اور حکمران متحد نہ ہوسکی وقتی طور پر متحد ہونے کا تاثر دینے والوں نے نیشنل ایکشن پلان پر باامر مجبوری اتفاق تو کر لیا لیکن نیشنل ایکشن پلان بنے ایک سال ہو گیا اس کے باوجود اس کے بیس نکات پر عمل نہ ہوسکا اب تک اس کے صرف ایک نکتے پر ہی کچھ عمل ہوسکاآرمی کے پاس جو ملزم تھے صرف انہیں ہی انجام کو پہنچایا گیا بعض کی سزاکو عدالتی حکم پر روک دیا گیا اور کچھ حکومت کی طرف سے دعووں کے باوجود کیسزآگے نہ پہنچ سکے جس کی وجہ سے آج یہ حالت ہوتی جارہی ہے کہ جن کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تھا وہ دوبارہ منظم ہو رہے ہیں وہ کون ہیں یہ سب جانتے ہیں ؟۔
Pakistani Protesters
ان کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے یہ بھی سب جانتے ہیں لیکن چونکہ ہر ایک کے اپنے اپنے مفادات ہیں اس لیے سب خاموش ہیں جو متحرک ہیں ان کا ساتھ دینے کے دعوے تو کئے جاتے ہیں لیکن ساتھ نہیں دیتے البتہ ساتھ دینے کا تاثر ضرور دے رہے ہیں اسی لیے تو عوام ایسے سیاست دانوں ‘ حکمرانوں اور ان لوگوں سے بیزار ہیں جو دعوے تو بہت کرتے ہیں عمل بالکل نہیں کرتے ان لوگوں سے عوامی بیزاری کے مظاہرے کئی مواقع پر دیکھے گئے ہیں اور دیکھے جائیں گے اس دہشتگردی کے ڈنڈے کہاں ملتے ہیں یہ بھی حکمران جانتے ہیں لیکن بے ہمت حکمران بات کرنے سے کتراتے ہیں ان کا کام صرف لمبے چوڑے دعوے کرنا ‘ متاثرہ غم زدہ لوگوں سے نام نہاد ہمدردی کرتے ہوئے فاتحہ خوانی کرکے انسانی قیمت لگانا رہ گیا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے قیمت لگا کر بڑا کارنامہ انجام دے دیا اس نام نہاد ہمدردی کی آڑ میں وہ یہ محسوس ہی نہیں کرتے کہ جن پر قیامت گزررہی ہے ان کی کیا حالت ہے انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہی نہیں ہے۔
اے پی ایس سانحہ ہو یا باچاخان یونیورسٹی کا سانحہ یا اس جیسے دیگر سانحے یہ سب المناک سانحے ہیں لیکن افسوس کہ حکمرانوں کے لیے یہ المناک نہیں رہتے اسی لیے اب تک کسی بھی بڑے سانحے کی تحقیقات سے قوم کو آگا ہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی آئندہ آگاہ کیا جائے گا یہ بات تو کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ اگر حکمرانوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا تو ایسے حالات ہی پیدا نہ ہوتے یہ بھی کہنے کی ضرورت نہیں کہ قوم ضیاالحق اور پرویز مشرف کے غلط فیصلوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے کیوں کہ یہ سب ہی جانتے ہیں یہ بھی کہنے کی ضرورت نہیں کہ جن کے لیے ہمارے حکمران استعمال ہوئے انہوں نے پاکستان کو اکیلا چھوڑ دیا اور اب پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ مل کر اپنے مفادات کے حصول کا کھیل کھیل رہا ہے اور یہ کھیل تب تک جاری رہے گا جب تک ہم ان کے چنگل سے نہیں نکل جاتے۔