تحریر: سفینہ نعیم اسلام میں تعلیم کو خاص اہمیت حاصل ہے اسلام کا سراپا علم ہونا ہی اس کا بنیادی خاصہ ہے۔ اسی لیے اسلام کی آمد تعلیم کی بنیاد میں ایک عظیم انقلاب ثابت ہوئی۔ اسلامی نقطہ نظر سے انسانیت نے اپنے سفر کا آغازعلم اور روشنی سے کیا۔ حضرت آدم کو اللہ تعالی نے جس چیز سے سرفراز فرمایا وہ علم تھا۔انسان علم ہی کی بدولت باقی مخلوق سے ممتاز ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی تہذیب کے صحت مند ارتقا اور نشو نما کے لیے علم ضروری ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلا م نے اسے اولین ضرورت قرار دیا ہے اسلا م کے سوا دنیا کا کو ئی مذ ہب یا تمد ن ایسا نہیں جس نے تمام انسانوں کی تعلیم کو ایک بنیادی ضرورت قرار دیا ہے۔اسلا م وہ واحد دین ہے جس نے تمام انسانوں پر تعلیم کو فرض قرار دیا ہے ۔حضوراکرمۖپر وحی نا زل ہو ئی تو علم کا مقام اور اس کی اہمیت ہی وا ضح نہیں ہو ئی بلکہ پڑ ھنے اور لکھنے کی طر ف واضح اشا را ت بھی کیے گئے۔قرآن مجید میں وا ضح طور پر حکم دیا گیا ہے۔
”پڑھیئے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ۔انسان کو خون سے پیدا کیا ۔پڑھیئے اور تیرا رب کر یم ہے ”۔یعنی وہ جس نے قلم سے تعلیم دی انسان کو ان چیزوں کی تعلیم دی جو وہ نہیں جا نتا تھا۔قرآن کریم میں حضور اکرم ۖکو نبوت کی جو ذمہ داریاں سو نپی گئی ہیںاور آ پ کو جو وظا ئف دیے گئے ہیں ۔ان میں تلا و ت قر آن،تعلیم کتاب و حکمت ،تز کیہ نفس اور تبلیغ دین کو ایک مر کزی مقام حا صل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آپ ۖ نے فر ما یا” میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں ”۔تعلیم صرف ”تدریس ِعا م” ہی کا نا م نہیں ،یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے ایک قوم خود آ گا ہی حا صل کر سکتی ہے ۔اس عمل سے افراد کے احساس اور شعور کو نکھا ر ملتا ہے ۔تعلیم نئی نسل کوزند گی گزا رنے کے طر یقوں کا شعور دیتی ہے۔
Books
اس میں زندگی کے مقا صد اور فر ائض کا احساس پیدا کر تی ہے ۔تعلیم ہی کے ذریعے ایک قوم اپنے ثقا فتی اور ذہنی ور ثے کو آ ئندہ نسلوں تک پہنچا تی ہے ۔لغت کے اعتبا ر سے تعلیم کا ما دہ ”عین ،لا م، میم” ہے اس کے معنی ہیں کسی چیز کو سمجھنا ۔تعلیم کے معنی بار بار اور بکثرت سے خبر دینے کے ہیں۔تعلیم ایک ایسا عمل ہے جوپیدائش سے شروع ہو تا ہے اور موت تک جا ری رہتا ہے ۔لہذا تعلیم کو ایک ایسا عمل کہا جا سکتا ہے جس سے گزر کر افرادسما جی ما حول سے مطا بقت رکھتے ہیں۔
تعلیم وہ مسلسل عمل ہے جس کے ذریعے نئی نسل کی اخلا قی، ذ ہنی ،جسما نی نشو ونما کی ہو تی ہے ۔اور وہ اپنے عقا ئد و تصو را ت اور تہذ یب و ثقا فت کی اقدار بھی اس سے اخذ کر تے ہیں ۔اسلا م کے نظام تعلیم میں صرف اور صرف ایسا نظا م ہی درست ہے ۔جو ہمیں رسول اکر م ۖ نے دیاہے ۔اور اسی نظام نے اس دنیا کو جہنم سے جنت میں بدل رکھا ہے ۔اور یہی نظا م اسلا م کے نظر یہ حیا ت کی بنیا د ہے ۔اسی نظام کی بدولت انسان کو دنیوی زند گی کا تصور ،زندگی کے نصب العین ،بنیا دی افکا رو عقائد اجزئے ایمان ،ارکانِ اسلام اور اخلاق و ادب کے با رے میں خبر ملتی ہے۔
انسان انسانیت کی معرا ج پر فا ئز ہو تا ہے ۔بقول شاعر فر شتوں سے بہترہے انسان بننا مگر اس میں لگتی ہے محنت زیا دہ تعلیم خو دمنز ل نہیں ہے ۔منزل کے حصول کا ذر یعہ ہے ۔حقیقی منزل اسلا می نظر یہ حیا ت ہے ۔رسول اللہ نے فر ما یا۔لوگوں میں سے درجہ نبوت کے قر یب تر اہل علم او ر اہل جہاد ہیں ۔اہل علم اس وجہ سے کہ انھو ں نے لو گو ںکو وہ با تیں بتائیںجو رسول اللہ لا ئے ۔اہل جہاد اس لیے کہ وہ پیغمبر وں کی لا ئی ہو ئی شر یعت پر اپنی تلوا ر سے جہا د کیا ۔ایک کہا وت ہے ۔کہ اگر تمہا را منصو بہ سا ل بھر کے لیے ہے تو فصل کا شت کر و،اگر دس سا ل کے لیے تو در خت اگا ئو اور اگر یہ منصو بہ دائمی ہے تو مناسب افر اد پیدا کرو اور تعلیم ہی وہ عمل ہے جس سے افر اد کی تعمیر ممکن ہے۔