تحریر : حفیظ خٹک وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے جب تیسری نار حلف لینے کے بعد جب شہر قائد پہلی بار آئے تو انہوں نے گورنر ہاؤس میں برسوں سے امریکہ کی جیل میں مقید ناکردہ جرائم کی سزا پائی والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ اور بچوں سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انہوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی کو تسلی دیتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ جلد بہت جلد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو باعزت رہائی دلواکر وطن واپس لے کر آئیں گے ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی بیٹی مریم نواز کی ہمنام ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بیٹی مریم کے سر پر بھی پاتھ رکھا اور اس سے وعدہ کیا کہ وہ جلد اپنے وعدے کو پورا کریں گے ۔ گورنر ہاؤس کی اس ملاقات میں حکومت کے کئی سرکردہ رہنما ؤں سمیت اس وقت کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد بھی موجود تھے ۔ ملاقات ختم ہوئی اور امریکہ کی جیل میں مقید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے کیا گیا وعدہ اب تلک پورا نہیں ہو پایا ہے۔
شہر قائد سے ہی تعلق رکھنے مسلم لیگ (ن)کے ایک اور رہنما جو کہ اس وقت پاکستان کے صدر بھی ہی ہیں ، ممنون حسین ان کا نام ہے اور ان کے متعلق بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی نے یہ بتایا کہ صدر صاحب نے بھی یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ صدر پاکستان بن گئے تو سب سے پہلا کام وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو واپس لانے والے عملی اقدامات کریں گے ۔ ایسی ہی گفتگو ماہ رمضان میں اک نجی ٹی وی چینل کے رمضان شو میں ڈاکٹر عامر لیاقت سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بھی کیا تھا ۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی جو کہ اک مایہ ناز نیورولوجسٹ ہیں ، انہوں نے اپنی زندگی کو اک بہن کو واپس لانے کیلئے داؤ پر لگا دیا ہے اس مقصد کیلئے انہوں نے اپنی جان کی پروا کئے بغیر شہر قائد سمیت وطن عزیز میں اور اس سے بھی بڑھ کر پوری دنیا میں مظلوم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لئے آواز اٹھائی ، ان کی باعزت رہائی کیلئے محنتیں کیں ، یہ سب آواز یں اور یہی سب محنتیں اب بھی جاری ہیں اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان کی آواز معدوم ہونے کے بجائے ، پختگی کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے ۔ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ اور یہ یقین انہیں ہی نہیں ان کی والدہ عصمت صدیقی کو ، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بچوں احمد و مریم کو اور ان سمیت عافیہ موومنٹ کے ہر کارکن کو اور ان سے بھی بڑھ کر قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس غرض کیلئے کام کرنے والے سبھی کو یقین ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو باعزت رہائی ملے گی اور وہ اپنے دیس واپس آئیں گی۔
حکومت پاکستان کے صدر اور ویزاعظم کی باتوں کے بعد اب اک اور شخصیت کا ذکر بھی ازحد ضروری ہے ۔ وہ شخصیت محترمہ امنہ مسعود جنجوعہ ہیں ۔ امنہ مسعود جنجوعہ جو کہ دس برسوں سے زائد مدت سے اپنے لاپتہ شریک حیات کو تلاش کر رہی ہیں۔ ان کے لاپتہ ہونے کے بعد ہی انہوں نے گھر کی دہلیز سے قدم باہر نکالا۔ ان کی کاوشیں جاری ہیں اور ان کی کاوشوں کے نتیجے میں 850سے زائد لاپتہ افراد کا نہ صرف پتہ چل گیا بلکہ وہ اپنے گھروں کو پہنچ گئے اور اس وقت ملک و قوم کی ترقی و استحکام کیلئے اپنی زندگیوں کو گذار رہے ہیں ۔ یہی وزیر اعظم نواز شریف، جب وزیر اعظم نہیں تھے تب امنہ مسعود کی جدوجہد کو دوام پہنچانے کیلئے ان کے کیپموں میں جایا کرتے تھے ۔ ان سمیت ان کے دیگر رہنما بھی اسی طرز کا عمل کرتے تھے لیکن جب سے نواز شریف وزیر اعظم بنے ہیں تب سے انہوں نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا ہے ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی جب لاپتہ تھیں اس وقت امنہ مسعود جنجوعہ نے ان کا پتہ لگانے کیلئے محنت کی ۔ وہ آج بھی عافیہ موومنٹ کے ساتھ ہیں اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کیلئے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ساتھ شانہ بشانہ محو جدوجہد کر رہی ہیں ۔ قوم کی بیٹی ، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایک بار نہیں ، بہت بار بلکہ بار بار کہا گیا ہے ، صورتحال تو یہ ہوچکی ہے کہ اب انہیں قوم کی نہیں بلکہ امت کی بیٹی کہا جاتا ہے ۔
5جولائی کو پاکستان پیپلز پارٹی ہر ساتھ یوم سیا ہ منا تی ہے اور یہی وہ تاریخ ہے کہ جب مرحوم ضیاء الحق نے عدالتی کاروائی کے بعد پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے گھاٹ تک پہنچایا تھا ۔ اس سال کے بعد آج تلک پیپلز پارٹی کے رہنما و کارکنان اس دن کو یوم سیاہ کی حیثیت سے مناتے ہیں ۔
اس برس پانامہ لیکس کے معاملات جب سامنے آئیں ہیں مختلف ملکوں میں اک بونچال کی سی کیفیت آچکی ہے ۔ وزرائے اعظم جن کے نام آئے انہوں نے اپنی عہدوں سے علیحدگی اختیار کی اور وزرا تک کو الگ کر دیا گیا ۔ وطن عزیز میں بھی بہت سے سیاستدانوں نے نام آئے اور مقدمات بھی درج ہوئے ۔ وزیر اعظم نواز شریف کے حوالے سے بھی تحریک انصاف کے رہنما سمیت دیگر رہنماؤں نے مقدمات درج کرائے ، حکمران جماعت روز اول سے ہی تمام تر الزامات کے محالف رہی اور ابھی تک وہ اسی محالفت کا مظاہرہ کر رہی ہیں ۔ سپریم کورٹ کے پانچ ججزنے پورے مقدمے کو سنا اور اس کے بعد فیصلہ دیا جس میں دو ججزنے وزیر اعظم کے خلاف جبکہ دیگر نے مقدمے کی مزید تحقیقات کرنے کا حکم دیا اور اس کے بعد فیصلہ کرنے کا حکم دیا ۔ اس فیصلے کے بعد حکمران جماعت کے رہنماؤں نے اور ان کے ساتھ ان کے تمام کارکنوں نے جی بھر کے نہ صرف کود مٹھائیاں کھائیں بلکہ سبھی کو بھی کھلائیں ۔ اس وقت ایسا سماں بندھ گیا تھا کہ جیسے وزیر اعظم جیت گئے ہیں اور عمران خان سمیت دیگر سبھی سیاستدان ہار گئے ہیں ۔ لیکن جب جے آئی ٹی کے سفر کا آغاز ہوا تو معاملہ یکسر مختلف رہا ۔ صورتحال ہرلمحہ گذرنے کے ساتھ بدلتی رہی اور تحقیقاتی کمیٹی اپنا کام احسن انداز میں کرتی رہی اور تاحال اس کا کام جاری ہے ۔
اسی کمیٹی کے سامنے حکمران جماعت کے سرپرست اعلی نواز شریف سمیت ان کے بچوں کو حسن اور حسین نواز تک کو کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑا ۔ میڈیا سمیت سبھی ذرائع ابلاغ اپنے انداز میں ا ن کاروائیوں کو پیش کرتے رہے ۔ کوئی وزیر اعظم کے حق میں بات کرتا تو کوئی ان کے خلاف اپنی باتوں کو پیش کرتے رہے ۔ پوری قوم ہی کی توجہ اس جانب مبذول رہی ۔ ماہ رمضان بھی اسی کشمکش میں گذر گیا ۔ کئی اچھی خبریں بھی آئیں جنہیں قوم نے بس سنا اور بھلا دیا تاہم جب پوری قوم کو چیمپئن ٹرافی کی جیت کاعلم ہوا تو حکمران جماعت سمیت پوری قوم جیت کے سکتے میں آگئی ۔ ٹرافی لئے جب ٹیم وطن واپس آئی تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا ان کیلئے انعامات و اعزازات کی بارشیں تاحال برس رہی ہیں ۔ حتی کہ وزیر اعظم نے بھی انہیں اپنے پاس بلایا اور انہیں کڑوروں روپے عنایت کئے ۔ کرکٹرز حقدار تھے انہیں محنت کاحق ملا اس پر پوری قوم اللہ کا شکر ادا کرتی ہے ۔ جب قومی نوعیت کے معاملات میں پوری قوم ایک صف پر کھڑی ہوسکتی ہے تو قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ بھی اک قومی نوعیت کا ہی ہے ۔ اسے بھی حل کرنے کیلئے وزیر اعظم صاحب اگر اپنا وعدہ پورا کریں تو یہ پوری قوم ہی نہیں عالم اسلامی تک ان کے ساتھ ہوگی ۔ لیکن وہ ایسا کیوں نہیں کررہے ، اس کا جواب وہ ہی دیں گے ۔۔۔۔
5جوائی کو تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے وزیر اعظم کی بیٹی مریم نواز کو پیش تھا جو کہ پیش ہوئیں ۔ انہوں نے بھی ایک سے زائد گھنٹے تک ان کے سوالات کے جوابات دیئے اور اس کے بعد باہر آکر میڈیا سے گفتگو کی ۔ مریم نواز جس طرح گھر سے باہر آئیں اور اس کاروائی کے بعد جس انداز میں وہ گھر واپس گئیں ، اس پورے وقت میں ذرائع ابلاغ نے ملک میں کسی بھی اور واقعے کو ، قصے کو خبر نہیں سمجھا بلکہ لمحہ بہ لمحہ مریم نواز کو پیش کرتے رہے ۔ اک تحریر نہیں اک کتاب اور اس سے بھی بڑھ کر کئی کتابیں اس ضمن میں لکھی جاسکتی ہیں ، لکھنے کا یہ عمل تو شاید مکمل ہوجائے لیکن اس پورے واقعے کا حق ادا نہیں ہوسکے گا ۔ اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں کی سڑکوں پر 5جولائی کے دن ایک ہی بینر نمایا ں نظر آیا ، یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ایک جملے کے علاوہ اور جملہ کہیں بھی نظر لکھا ہوا نہیں ملا ۔ مسلم لیگ (ن) کے سبھی رہنماؤں اور کارکنوں کو اس دن صرف یہ نظر آرہا تھا کہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی نہیں بلکہ مریم نواز ہیں اور پوری قوم ان کے ساتھ ہے ۔ یہ نواز شریف کی بیٹی قوم کی بیٹی کی حیثیت سے مقدمے میں اپنی رائے کے اظہار کیلئے جے آئی ٹی میں پیش ہورہی تھیں اور یہ اس وقت انہیں یہ نظر آرہا تھا کہ ایک عورت مریدوں کے سامنے اپنی بات کہنے کیلئے پیش ہورہی ہیں ۔ یہ قدم ان کے نزدیک غلط تھا اس کے باوجود مریم نواز یہ قدم صرف حق بات کی گواہی کیلئے وہ گھر سے نکل کر عدلیہ جارہی تھیں ۔ حکمران جماعت کے رہنما تو رہنما ، ان کے کارکنان بھی اور ان کے ساتھ حکومت کے اہلکار تک مریم کے شانہ بشانہ ان کی حفاظت کیلئے ان کے ساتھ تھے ۔ مریم نواز جب اپنی گاڑی سے باہر آئیں تو خاتون پولیس آفیسر نے انہیں سلوٹ کیا جو اک غلط قدم تھا ۔
اس سیلوٹ کے وقت مجھے سابقہ فوجی جرنل راحیل شریف یا د آیا کہ جب انہوں نے نیشنل اسٹیڈیم میں عبدالستار ایدھی مرحوم کی نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد ان کی میت کو سیلوٹ کیا تھا ۔ اس وقت راحیل شریف تو کیا پوری قوم مرحوم کو سیلوٹ کر رہی تھی ۔ ان کی عاقبت کی لئے دعائیں مانگ رہی تھیں ، ایک فوجی سربراہ کی حیثیت سے یہی سب سے بڑا کام تھا جو راحیل شریف نے سرانجام دیا ۔
تاہم مریم نواز کو اس خاتون آفیسر نے جو سیلوٹ کیا اس پر تو ان سے یہ پوچھا جانا چاہئے کہ آخر کیونکر انہوں نے یہ قدم اٹھایا ، یہ قدم انہوں نے ازخود اٹھایا یہ انہیں ایسا عمل کرنے کو کہا گیا تھا ۔ مریم نواز ایک وزیر اعظم کی بیٹی ہے لیکن انہیں سیلوٹ پیش کرنے کا حکم سمجھ سے بالا ہے ۔
اس کے بعد قوم کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ مریم نواز ان کی بیٹی ہے تو کیا امنہ مسعود جنجوعہ ، ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ان ہی جیسی ان گنت بہنیں ، بیٹیاں ،شہداء کی مائیں ، کیا اس قوم کی بیٹی نہیں ہیں ؟ جو اعزاز مریم نواز کو پیش کیا جارہا تھا اور کیا جاتا ہے ،کیا اس پر دیگر کا کوئی حق نہیں ہے ؟
مقدمے کیسا بھی ہو ، اور اس کا فیصلہ کچھ بھی اس سے قطع نظر سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ قوم کی بیٹی اگر مریم نواز ہے تو قوم ہی نہیں پوری دنیا کے عوام دیکھ لے کہ پاکستان میں قوم کی بیٹی کا کس طرح سے خیال رکھا جاتا ہے ، اس لمحے وہ قوم کی ان بیٹیوں کو بھول جائیں جو مظلوم ہیں ، جنہوں نے مظلومیت کے باوجود اپنے ملک کیلئے بہت کچھ کیا ۔ ان کا نام تک نہ لیں ۔ ان کا ذکر تک نہ کریں ۔ بس قوم کی بیٹی مریم نواز ہے اسے یاد رکھیں اس کیلئے اپنے جذبات رکھیں ۔ بھول جائیں اس وقت ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں ہونے اقتال کو اور اس قوم کی بیٹی کو کہ جب انہیں اس بات کا علم ہوا کہ انہیں انصاف اب نہیں ملے گا کیونکہ ان کے شوہر کے قاتل کو حکومت چھوڑ رہی ہے تو اس نے خود کشی کر لی اور وقت بھی بستر مرگ پر وہ یہی کہہ رہی تھیں کہ اب انہیں انصاف کی توقع نہیں اس لئے اس نے یہ قدم اٹھایا ۔ مریم نواز بتائے کیا وہ قوم کی بیٹی نہیں تھی ؟
Maryam Nawaz
مریم نواز ہی جواب دے ان ماؤں کو جن کے بیٹے لاپتہ ہیں ، کیا وہ قوم کی مائیں نہیں ہیں ؟ ان بیٹیوں کو جن کے والدین کا بھی کوئی پتہ نہیں ہے ۔ ان مردوں کی شریک حیات کو جو اپنے شریک سفر کی واپسی کیلئے راہ تک رہی ہیں ۔ مریم نواز جواب دے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بیمار والدہ کو جو آج تلک دروازے پر نگاہ رکھے بیٹی ہیں اور اپنی بیٹی ، اس قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی راہ تک رہی ہیں ۔ وزیر اعظم نواز شریف بھی بتائیں کہ کون ہے اس قوم کی بیٹی ،ان کی بیٹی یا عصمت صدیقی کی بیٹی ۔ مریم نواز یاڈاکٹر عافیہ صدیقی کی مریم ۔وہ یہ بھی بتائیں کہ آخر آج تک انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیوں نہیں کیا ؟ اس کے ساتھ صدر پاکستان بھی یہ بتائیں کہ ان کی نظر میں قوم کی بیٹی کون ہے اور اگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی قوم کی بیٹی ہے تو ان کی واپسی کیلئے انہوں نے اب تلک کوئی قدم کیونکر نہیں اٹھایا؟ آج پوری قوم بھی یا بتائے کہ ان کی نظر میں قوم کی بیٹی کون ہے ؟ وزیر اعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز یا برسوں سے امریکہ میں مقید ڈاکٹر عافیہ صدیقی ؟؟؟