بیٹی کا نام جب بھی زبان پر آتا ہے دل میں ایک محبت کا جذبہ جاگتا ہے۔ یہ مہکتی کلیاں اپنے چمن کی ہوں یا دوسروں کے چمن کی سب کو پیاری لگتی ہیں۔ ہر ایک کے دل کی دعا ہے کہ یہ کلیاں سدا مہکتی رہیں۔ ایک بزرگ خاتون سے کسی نے پوچھا کہ آپ تو بہت خوش ہوتی ہوں گی کہ آپ کی بیٹیاں اپنے گھروں میں بہت خوش ہیں؟ انہوں نے جواب دیاکہ ان کے والد نے دوسروں کی بیٹیوں کو ہمیشہ خوش رکھا۔ اس بزرگ نے کتنی اچھی بات کہی ۔ہم جو کچھ اپنی بیٹیوں کے لیے چاہتے ہیں وہ ہی دوسروں کی بیٹیوں کے لیے بھی پسند کریں ۔
کتنے ظالم ہیں وہ لوگ جو اپنی بیٹی کے لیے پھول اور دوسروں کی بیٹی کے لیے کا نٹے پسند کرتے ہیں ۔ اپنی بیٹی کو خوشیوں میں کھیلتا دیکھنا چاہتے ہیں اور دوسروں کی بیٹی کو دکھ دیتے ہیں۔ اپنی بیٹی کے عیبوں پر پردہ ڈالتے ہیں اوردوسروں کی بیٹی کو بد نام کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔لیکن سچ بات تویہ ہے کہ بیٹیاں تو سب کی برابر( سانجھی) ہوتی ہیں۔ یہ میری اور تمھاری نہیں ہوتیں۔
پاکستان کی ایک بیٹی جو اپنوں کی مہربانی سے ان دنوں امریکہ کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے اور ایک ایسے جرم کی سزا پارہی ہے جو اس سے سرزد بھی نہیں ہوا۔ جی ہاں اس معمولی سے حوالے سے ہر ایک ٹھیک سمجھتا ہے کہ ڈا کٹر عافیہ صدیقی کی بات ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے خاندان کاآخری چشم و چراغ ہیں۔ وہ بہت خوش اخلاق اور ملنسار تھیں۔ ذہین ہونے کی وجہ سے ہمیشہ کلاس میں پوزیشن حاصل کرتی تھیں۔
اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ڈاکٹر عافیہ نے کئی بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کیے۔ انہیں غریبوں اور ناداروں کی مدد کر کے بہت خوشی ہوتی تھی۔ ان کے سینے میں غریبوں کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ان کو انسان تو انسان حیوانوں بھی بہت محبت تھی۔ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعدپاکستان میں تعلیمی میدان میں انقلاب برپا کرنے کی خواہش رکھتی تھیں۔لیکن افسوس امت مسلمہ کا یہ پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گیا۔
Dr. Aafia
2003کا ایک منحوس دن تھا جب ڈاکٹر عافیہ کو ان کے بچوں سمیت اغوا کر لیا گیا۔ اور اس واقعے کی کسی کو خبر تک نہیں ہوئی۔ انہیں اغوا کر کے افغانستان پہنچا دیا گیا۔ پھرا یک ایسی گھڑی بھی آئی جب اس معصوم بچی کوچند ٹکو ں کی خاطر امریکہ کے حوالے کر دیا گیا جس کا اعتراف سابقہ حکومت نے کر لیا تھا کہ عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔اس کے بعد ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے پاکستان بھر سے ہر سطح پرآوازیں بلند ہوئیں مگرآو از بلند نہیں ہوئی تو بس حکومتی سطح پر۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عافیہ صدیقی ہماری، امت مسلمہ کی بیٹی نہیں؟ یہ حقیقت ہے کہ آج کے خودغرض دور میں صرف اپنا اپنا ہے باقی کوئی کسی کا نہیں۔
مگر اس دنیا میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دوسروں کے لیے اپنے سینے میں درد دل رکھتے ہیں۔ جن کی وجہ سے یہ نظام کائنات چل رہا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ رزق کی تقسیم انسان کے ہاتھ میں دے دیتا تو شاید وہ خود کے علاوہ سب کو بھوکا مار دیتا۔ اگر انسانیت کے ناطے سوچا جائے تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہماری بیٹی ہے۔ وہ امت مسلمہ اور پاکستان کی غیرت ہے۔ اگر غیرت سوئی ہوئی ہے تو بس ہم مسلمانوں کی۔ کہاں کھو گئے ایدھی، انصار برنی اور ملک ریاض جو اپنے آپ کو دکھی انسان کا مداوا سمجھتے ہیں۔ اگر قزاق لوگوں کو اغوا کریں تو یہ کروڑوں روپے تاوان دیکر ان کو چھڑا سکتے ہیں خواہ وہ پاکستانی ہوں یا انڈین مگر ڈاکٹر عافیہ کے لیے نہ انسانی ہمدردی رہی اور نہ ہی قانون۔
Mian Nawaz Sharif
پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں میاں نواز شریف نے برملا کہا تھاکہ میری حکومت آئی تو میں پاکستان کی دختر کو واپس لاؤں گا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میا ں نواز کے اس نعرے پر عوام نے اپنی بیٹی، بہن کی خاطر ووٹ دیے ہوں۔ میاں صاحب اب آپ کو بھی اپنا وعدہ یاد رکھتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان لانا ہو گا۔ اس مظلوم کے بچے جو اپنی ماں کے لیے ترس رہے ہیں ان کو ملانا ہو گا۔ میاں صاحب یہ سیاسی نعرہ نہیں بلکہ انیس کروڑ عوام کی آواز ہے جو اپنی بیٹی کودشمن سے آزاد کرانا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ اپنی بہن کی رہائی کے لیے اس دن سے آج تک چین سے نہیں بیٹھیں۔ ملک کے طول و عرض میں ایک چینل سے دوسرے چینل، ایک اخبار سے دوسرے اخبار اور ایک سیاسی اکائی سے دوسری اکائی تک کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں ایک کمزور و بے بس خاتون نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے آواز بلند نہ کی ہو۔
افسو س اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور امریکہ کا ریمنڈڈیوس جوایک قاتل تھا اس کو ہمارے حکمرانوں نے منٹوں میں آزاد کرکے امریکہ پہنچا دیا۔یہ کیسا انصاف تھا؟ اور دوسری طرف جو جرم ڈاکٹر عافیہ نے کیا ہی نہیں اس کے جرم میں 86 سال کی سزا دی جارہی ہے۔ یہ امریکہ ہر قانون سے بالا تر ہے یا ہمارے حکمرانوں میں اپنی بات منوانے کا دم خم نہیں؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا اصل جرم مسلمان اور پاکستان کی بیٹی ہونا ہے اس لیے وہ امت مسلمہ کی ہی بیٹی ہے۔ جس طرح دوسرے مسائل پر تمام مسلمانوں اکٹھے ہو جاتے ہیں اور او آئی سی کا اجلاس بلایا جاتا ہے تو پھر عافیہ کے لیے کیوں مسلمان اکٹھے نہیں ہورہے؟او آئی سی کیوں آواز بلند نہیں کررہی؟ شاید اس کی وجہ یہ ہی ہے کہ حکومتی سطح پر اس کے لیے آج تک کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی۔
کالمسٹ کونسل آف پاکستان، وائس آف یوتھ اور پاکستان کی انیس کروڑ عوام کی میاں نواز شریف وزیراعظم پاکستان سے توقع رکھتی ہے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو فی الفور رہا کر اکر پاکستان لائیں گے اور عوام سے کیا ہوا وعدہ پورا کریں گے۔ رب العزت کی بارگاہ میں ہماری دعا ہے کہ اللہ ہماری اس بہن کو جلد از جلد غیر مسلموں کے چنگل سے آزاد کراکر اپنے دیس میں لائے۔ آمین (بشکریہ پی ایل آئی)