تحریر : عماد ظفر 1987 کے بعد جب ضیاالحق کی بدترین آمریت کا خاتمہ ہوا تب سے لیکر آج تک پاکستان میں کوئی وزیر اعظم پانچ سال کی مدت نہ پوری کر پایا. کبھی اٹھاون ٹو بی کے زریعے اور کبھی مارشل لا کے زریعے اور کبھی مارشل لا دور میں ہی لٹھ پتلی وزیر اعظم کو بھی تبدیل کیا جاتا رہا.
مشرف کے دور کے بعد چارٹر آف ڈیمو کریسی کے تحت جب پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے اٹھاون ٹوـبی کے اختیارات ختم کر کے اور اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو خود مختار بنا کر ماورائے آئین اقدامات کا سلسلہ بند کر دیا تو قوی امید تھی کہ وزرائے اعظم اب اپنی مدت پوری کر لیا کریں گے لیکن یوسف رضا گیلانی کو افتخار چوہدری کے ذریعے مایل کرواـکر پیغام دے دیا گیا کہ “یار لوگ” ہی اصل بادشاہ ہیں اور جب تک ان کی ڈکٹیشن سمی جائے گی تب تک جمہوریت کی گاڑی چلتی رہے گی وگرنہ پھر معاملہ گڑبڑ ہے.
اس وقت نواز شریف بھی “یار لوگوں” کی عنایت کی وجہ سے یوسف رضا گیلانی کی پوزیشن پر جا چکے ہیں. جہاں عدالتوں سے انہیں نااہل کروا کے “یار لوگ” اپنی سبکی کا انتقام بھرپور طریقے سے لے سکتے ہیں. یہ اور بات کہ پانامہ لیکس میں نہ تو نواز شریف کا براہ راست نام ہے اور نہ ہی اس طرح کے سفید کالر جرم کو عدالتوں میں ثابت کیا جا سکتا ہے. مگر ثابت تو بھٹو صاحب پر بھی کچھ نہ ہونے پایا تھا اور یوسف گیلانی صاحب بھی محض افتخار چوہدری صاحب کے جوڈیشل ایکٹوزم کی بھیڑ چڑھ گئے تھے. خیر “نواز شریف ” کیونکہ خود یوسف رضاـگءلانی کی طرح مہرہ نہیں ہیں بلکہ اپنی جماعت کے سربراہ ہیں تو ایسی صورت میں ان پر عدالتی تلوار کا چلانا بھی “یار لوگوں” کیلئے جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے.
Yousuf Raza Gilani
سیرل المیڈا کی سٹوری والی بات کو جس طریقے سے “یار لوگوں” نے اٹھایا ہے اس کا انجام کسی بھی وزیر یا مشیر کی بلی سے بڑھ کر زیادہ نہیں ہو گا البتہ مریم نواز کوـاب 2018 کے انتخابات کیلئے لانچ نہیں کیا جا سکے گا.یوں “یار لوگ” نہ صرف “شکریہ” کی مہم فلاہـہونے کا بدلہ بھی لینے میں کامیاب رہیں گے آخر کو “شکریہ” کی مہم دس سے بارہ ٹی وی چینلز بڑے بڑے اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے انتہائی کامیابی سے چلائی گئی تھی اور اس مہم کا صرف مریم نواز کے میڈیا سیل کے ہاتھوں برباد ہونا “یار لوگوں” کو کیسے ہضم ہو سکتا تھا. دوسری جانب ہار لوگوں کو نواز شریف سے جو شکایات تھیں ان کا ازالہ بھی نہ ہوـسکا آور نواز شریف اپنی تمام تر کوتائیوں کے باوجود بہت سے معاملات پر “یار لوگوں” کی بات ماننے سے انکار کرتے ہوئے اپنے معاشی ایجنڈے کو آفت بڑھاتے رہے جو ظاہر ہے لبرل اکنامی اور لبرل معاشرے کے گرد گھومتا ہے اور جس میں “یار لوگوں” کو کوئی خاص حصہ نہیں ملتا. یہاں یہ تجزیہ کرتے ہوئے ہرگز بھی یہ تحریر کرنا مقصود نہیں کہ نواز شریف کوئی دودھ کے دھلے ہوئے آدمی ہیں یا ان کی گورننس بہت مثالی ہے.
بہرحال پیپلز پارٹی کے سابقہ دور سے ان کی حکومت کے معاملات بے حد بہتر ہیں اور معاشی ایجنڈے پر کام ہوتا دکھائی بھی دیتا ہے. لیکن ان کے ماضی کا بوجھ “یارلوگوں” کی تفریح طبع کے سامان کیلئے کافی ہے. یہی وجہ ہے “یار لوگوں” نے مسلسل دباؤ برقرار رکھنے کیلئے قصیدہ خواں گدھ اور چند سیاسی گھوڑوں کو شہ دے رکھی ہے اور جب دل چاہتا ہے ان گھوڑوں کی پشت پر چابک مار کر نواز شریف یا دیگر وزرائے اعظم کو ان کی اوقات یاد دلا دیتے ہیں.
Nawaz Sharif
وگرنہ کونسی مہذب دنیا میں ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر وزیر عظم یا دیگر سیاستدانوں کو ہمہ وقت “غدار وطن” ہونے کی اسناد پیش کی جاتی ہیں. کچھ انتہائی “صابر شاکر”، “شریف” یا قیامت کی پیشن گوئیاں کرنے والے ہمہ وقت ملک میں مارشل لا آنے کی نوید سنا رہے ہوتے ہیں، ہا پھر کونسے مہذب ملک میں کوئی سیاستدان اٹھ کر شہروں کو بند کروانے نکل پڑتا ہے.
اب “یار لوگوں”کی خواہشات بھی معصومانہ ہیں وہ چاہتے ہیں کہ مخالفین کی گردنیں تو اپنے “مہروں” کے ذریعے دباتے رہیں لیکن جواب میں مخالفین اف تک نہ کریں بلکہ جواب میں “یار لوگوں” کو “شکریہ” بھی کہتے رہیں. خیر یہ ہاتھیوں کی لڑائی ہے اور عوام بیچارے اس میں گھاس کی طرح دونوں ہہ طرف کے ہاتھیوں کے پیروں تلے مسلے جاتے ہیں.
اسلام آباد بند کروانے والے تو خیر گیدڑ بھبکیوں کے بعد چلے جائیں گے لیکن “یار لوگ” مائنس ون کے فارمولے پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے بصورت دیگر خود “یار لوگوں” کو پلس مائنس کا سامنا کر پڑ سکتا ہے.