بلدیاتی الیکشن 2015 ء کے بعد جنرل الیکشن 2018 ء کو انتہائی قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا بلدیاتی میں تو میں خود ہی امیدوار بن کر میدان میں اترا تھا، جنرل الیکشن میں امیدوار کے ساتھ بھر پور محنت کو ہی ترجیع دی مگر دونوں میں ناکام ہوا۔ پاکستان میں جب بھی الیکشن ہوئے ہر ہارنے والے نے جیتنے والے پر دھاندلی کا الزام لگایا اور آپ شاید یہ سوچ رہے ہیں کہ میں بھی آج یہی کرنے والا ہوں تو آپ درست ہے۔
جب میں الیکشن میں کھڑا تھا اس وقت میرے مخالف نے یونین کونسل کے ایک وارڈمیں ایک خواتین اور ایک مردوں کے پولنگ اسٹیشن کو یرغمال بنایا اور اس پر خوب دھاندلی کی مگر ہم نے بھی ان کو انکے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا اور ہم کونسلر کو سیٹ تو ہار گئے مگر چئیرمین کی سیٹ جیت گئے۔ ان کی دھاندلی میں سرکاری مشینری بھی ان کے ساتھ تھی جن کے کئی سارے ثبوت ہم نے پیش کئے مگر حل زیرو۔
اب آتے ہے جنرل الیکشن 2018 ء کی جانب، میں تحریک انصاف کا کارکن نہیں مگر میری خواہش تھی کہ تحریک انصاف اقتدار میں آئے۔ جس کی وجہ کہ ایک نئی جماعت کو بھی موقع دیاجانا چاہیے، میں نے اپنے حلقے اپنے امیدوار جو تحریک انصاف کا نہیں تھا مگر ایک عالم دین ہونے کی وجہ سے میں نے ان کے لئے بھر پور مہم چلائی میرے اس حلقے میں جو مقابلے کی فضا قائم تھی وہ پاکستان پیپلزپارٹی۔ متحدہ مجلس عمل۔ پاکستان راہ حق پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان تھی مگر جیت ہوئی تو تحریک انصاف کی۔ میں بھی دیگر افراد کی طرح اپنے امیدوار کی ہار پر افسردہ ہوں مگر اس سے زیادہ اس عجیب و غریب جیت پر حیران جو ناممکن تھا وہ ہو گیا۔
الیکشن کمپیٔن میں تمام سیاسی جماعتیں اس حلقے میں بھر پور پاور شو کا مظاہرہ کررہی تھی مگر تحریک انصاف کے صوبائی امیدوار نے عوام کو اپنے جانب کچھ خاص مائل نہیں کرسکا تھا ، ایک تو وہ اپنے علاقے میں بھی ناپسندیدہ شخصیت سمجھے جاتے تھے اور دوسری جانب اس حلقے کے سابق ایم پی اے بھی تحریک انصاف کے تھے، جو عوام کی معیار پر پورا نہیں اترے۔ مگر اس کی جیت نے جہاں حلقے کے دیگر لوگوں کو حیران و پریشان کیا وہی مجھے بھی یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کیوں عوام کے ٹیکس سے جمع شدہ رقم کو یوں خرچ کیا گیا؟ 25 جولائی بروز بدھ فجر کی نماز کے بعد جب میں نے مفتی صاحب کے پولنگ ایجنٹوں کو مختلف پولنگ اسٹیشنوں میں بیٹھانا شروع کیا تو اس وقت سے لیکر شام چھ بجے تک یہی سوچ تھا رہا کہ آج ہمارا صحیح مقابلہ ایم کیو ایم سے ہی ہوگا۔
شام چھ بجتے ہی تمام پولنگ اسٹیشنوں پر ایک ہی ساتھ پولنگ ختم ہوئی اور گنتی شروع کردی گئی ، ہر امیدوار کے سپوٹران کی ایک بڑی تعداد مختلف پولنگ اسٹیشنوں بہار رزلٹ لے نے کے لیے جمع تھی دو پولنگ اسٹیشنوں کے رزلٹ ملے جس میں مفتی صاحب سب سے آگے تھے اور میڈیا پر یہی خبر نشر ہونے لگی ، مگر اس کے بعد مزید 117پولنگ اسٹیشنوں کے رزلٹ روکھ دیے گئے ۔ رات بارہ بجے تک پولنگ اسٹیشنوں کے باہر فارم 45کے انتظار میں رش لگا ہوا تھا اور بارہ کے بعد رش آہستہ آہستہ ختم ہوتا گیا اور یوں رات دوبجے مین پولنگ ایجنٹ بھی تکن سے چھور چھور ہوکر اپنے اپنے گھر کو چل دیئے۔
اگلا دن یعنی 26جولائی کو تمام امیدواران انتظار میں تھے کہ ابھی رزلٹ آیگا ابھی رزلٹ آیگا، مگر شام 5بجے اعلان کچھ یوں ہوتا ہے کہ تحریک انصاف جیت گئی ، اس پی ایس سے ، جیسے میں نے درج بالا میں تحریر کیا کہ ایک ناممکن کام ہوگیا ، پورے پی ایس میں کسی کو امید ہی نہیں تھی کہ یہ شخص بھی ہمارا ایم پی اے بنے گا۔ چلو اب جیت کا اعلان ہوہی گیا اب ہمارے نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں۔
خیر 2013ء کے الیکشن میں بھی تمام ہارنے والوں نے یہی کہا تھا کہ ہمارے ساتھ دھاندلی ہوئی ہیں۔ پاکستان کوبنے ہوئے ستر سال کا عرصہ گزرا مگر شفاف الیکشن آج تک نہیں ہوسکے۔ الیکشن والے دن شام چھ بجے میں نے ایک دوست کو کہا کہ میرے زندگی میں یہ ایک شفاف ترین الیکشن ہے اگر اس کے بعد بند کمروں میں دھاندلی نہ ہو تو ، شفاف کیوں ہے کہ پورے دن کسی بھی حلقے یا پولنگ اسٹیشن سے دھاندلی کی اطلاع نہیں ملی اور نہ ہی کسی ناخوش گوار واقع کی سیوائے کوئٹہ کے جہاں ایک ناخوش گوار واقع ہوا جس میں 25خاندانوںکے چشم چراغ بجھ گئے جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے، یہ تو تھی دہشت گردوں کی کارستانی مگر کوئی سیاسی اموات نہ ہونے اور کوئی بڑا جھگڑا نہ ہونا الیکشن کی شفافیت کو ظاہر کررہی تھی ۔مگر پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا مغرب کے بعد کئی پولنگ اسٹیشنوں سے فون آنے لگے ( یہاں اس بات کی وضاحت کرتا چلو کے پولنگ اسٹیشن میں فون لے جانہ منع تھے مگر کئی جماعتوں کے نما ئندے اپنے ساتھ چھپ چھپا کر لے گئے تھے)اور کہنے لگے کہ ہمیں باہر نکال دیا گیا ۔ یہ تو تھی کہانی میرے حلقے کی اب ڈالتے ہے پورے ملک پر مختصراً نظر۔
الیکشن کمیشن اور نگران حکومت نے اپنے وعدے کے مطابق مقررا وقت پر الیکشن تو کرادیئے ،مگر 2013ء سے بھی زیادہ دھاندلی کی آوازیں آنے لگی ، الیکشن کمیشن نے اعلان کیا تھا کہ تمام تر جدید سہولیات موجود ہونے کی وجہ سے رات دو بجے تک تمام امیدواران کی کامیابی و ناکامیابی کا اعلان کردیا جائے گا ، لیکن پاکستانی قوم کی طرح عالمی ذرائع ابلاغ بھی حیران ہے کہ 48گھنٹوں تک مختلف امیدواروں کی کامیابی و ناکامی کا اعلان کیے جاتے رہے، اب بھی کئی حلقوں پر ننگی تلوار لٹک رہی ہیں۔
سیکر ٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب نے انتخابات پر لگنے والے دھاندلی کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کوئی نتیجہ نہیں روکا ، نتائج میں تاخیر کی وجہ آرٹی سسٹم کا بیٹھ جاناہے۔ مزید کہنا تھا کہ شام چھ بجے دبائو بڑا تو ٹیلی فون سسٹم بیٹھ گیا ،جبکہ تاخیر کی وجہ نہ کوئی گھنائونی سازش ہے نہ کوئی دبائو۔ جبکہ عام عوام و سیاسی جماعتوں کا کہنا تھا کہ یہ تمام سسٹم کو ایک ہی ساتھ پورے ملک میں رزلٹ کے وقت ہی بیٹھنا تھا؟
یہ ملکی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ پاکستان کی دس بڑی و چھوٹی سیاسی جماعتوں نے بشمول مسلم لیگ (ن) ،پیپلز پارٹی ،مجلس عمل اور ایم کیوں ایم نے حالیاں انتخابات میں بدترین دھاندلی کے الزامت عائد کئے ،گر چہ پیپلز پارٹی کو گزشتہ الیکشن سے زیادہ سیٹیں ملی ، مگر کہیں نہ کہیں دال میں کچھ کالا ضرور تھا جو سب کے سب یک زبان ہوئے۔
اتخابی عملے پر تحریک انصاف سے ملی بھگت اور نتائج بدلنے کے الزامات تقرباً تمام سیاسی حلقوںاور کئی مبصرین کی جانب سے عائد کیے جارہے ہیں ۔ انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد جو دو بڑے الزمات لگے ، ایک گنتی کے وقت بہت سارے پولنگ اسٹیشوں سے سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکالا گیا جس کاایک گواہ تو میں بھی ہوں میرے حلقے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ دوسرا یہ کہ فارم نمبر45بھی بہت کم اسٹیشنوں میں ملا ، فارم نمبر 45وہ فارم ہے جو کسی بھی پولنگ اسٹیشن پر کس نے کتنے ووٹ حاصل کیے اور اس کی تصدیق کے لیے سرکاری مہر بھی لگائی جاتی ہے۔
خیر دھاندلی کے الزامات الیکشن سے قبل ہی لگنے شروع ہوگئے تھے ، مختلف قوتوں کی کی کوشش تھی کی عمران خان کی حکومت آئے، مگر جو بھی ہوا تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ایک سبق ہے، اب وفاق اور خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی حکومت بنے گی ”جلد ہی عوام کو پتا لگ جائے گا” کہ ہمارے مقتدر حلقوں کا یہ فیصلہ درست ہے یا غلط ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یااللہ تو ہی میرے ملک کو اپنے حفظ و امان میں رکھنا اور نیک حکمران عطا فرما(آمین)