ہمارے حکمران ہمیشہ اس وقت سوچتے ہیں جب مصیبت ان کے سر تک پہنچ جائے پھر یہ سب سیانے سر جوڑ کوئی نہ کوئی تدبیر نکال ہی لاتے ہیں مگر مصیبت آنے سے پہلے ہم کبوتر کی طرح بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتے ہیں ہر سال پاکستان میں بارشوں کے موسم میں سیلاب آتے ہیں مگر ہم نے آج تک اس صورتحال سے نکلنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی اور جب سیلاب آجاتا ہے عوام ڈوبنا شروع ہو جاتی ہے۔
تو پھر ہمارے حکمران کچھ کرنے کا سوچتے ہیں اور تب تک بہت تاخیر ہو چکی ہوتی ہے غریب انسان جو پہلے اپنی غربت، تنگدستی اور بیماریوں کے ہاتھوں ستایا ہوا ہے جب سیلاب جیسی نئی صورتحال سے نبرد آزما ہوتا ہے تو اسکے رہے سہے اوسان بھی خطا ہو جاتے ہیں پاکستان میں اس وقت لوگوں کی پریشانی حد سے بڑھ چکی ہے اگر ایک طرف روزگار کی پریشانی ہے تو دوسری طرف بیماریوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے عوام بے بسی سے موت کے منہ میں جارہے ہیں۔
گذشتہ روز ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری اطلاعات ڈاکٹر سلمان کاظمی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ محکمہ صحت کی نااہلی، حکومت کی ہٹ دھرمی اور چاپلوس میڈیکل سپرنٹنڈنٹس کی وجہ سے ملک کا ہر 10 واں شہری ہیپا ٹائٹس کا شکار ہو چکا ہے پرائیوٹ میڈیکل کالجز نے عوام کے ساتھ ساتھ مریضوں کا بھی خون چوسنا شروع کر رکھا ہے۔
جبکہ حکمرانوں کی ناانصافیوں کی بدولت سینئر ڈاکٹر ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں ملک میں صحت کی ابتر صورتحال اور محکمہ صحت کی عدم دلچسپی کے باعث 13 ہزار شہریوں کے لیے ایک ڈاکٹر کی سہولت موجودہے ڈاکٹروں کی اتنی کم تعداد ہونے کے باوجود پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں 50 فیصد ڈاکٹروں کی سیٹیں خالی پڑی ہوئی ہیں۔
Doctors
اور جو ڈاکٹرز ان ہسپتالوں میں کام کررہے ہیں وہ بھی اپنے مستقبل سے مایوس ہیں کیونکہ انہیں کسی قسم کا تحفظ نہیں خاص کر خواتین ڈاکٹر ز اور سٹاف نرسز کے ساتھ بعض اوقات انتہائی توہین آمیز رویہ دیکھنے کو ملتا ہے اس کے ساتھ ساتھ سرکاری ہسپتالوں میں کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت ہے جہاں پر مریضوں کو ادویات نہیں دی جاتی وہیں پر ڈاکٹروں کو بھی کسی قسم کے کھانے کی سہولت میسر نہیں۔
جبکہ ہسپتالوں میں چلنے والی کینٹین انتہائی مضر صحت کھانے کھلا کر مریضوں کی تعداد میں اضافے کررہی ہیں جسے آجتک کسی نے چیک ہی نہیں کیا جبکہ محکمہ صحت کے حوالے سے سارا نظام ہی تبدیل ہونے والا ہے پرائیوٹ میڈیکل کالجز نے لوٹ مار کا ایک اپنا ہی الگ سے نظام قائم کررکھا ہے PMDC اور ہیلتھ یونیورسٹی والے شائد سو رہے ہیں۔
سرکاری ہسپتالوں میں صفائی کا نظام انتہائی خراب ہونے کے باعث اور غیر معیاری ادویات کی وجہ سے سرکاری ہسپتال دارالصحت کی بجائے دارالامراض بنے ہوئے ہیں جبکہ ان ہسپتالوں کے ایم ایس صاحبان صرف اپنے اعلی افسران کی چاپلوسی کرنے میں مصروف ہیں سیاستدانوں اور اپنے اعلی افسران کو انکے گھروں میں علاج معالجہ کی سہولتیں فراہم کی جارہی ہے۔
جبکہ غریب مریض ہسپتال پہنچ کر بھی ادویات کے لیے خوار ہورہے ہیں ڈاکٹر سلمان کاظمی کا کہنا تھا کہ حکومت تمام سرکاری ہسپتالوں میں میرٹ پر ایماندار سینئر ڈاکٹرز کو ایم ایس تعینات کرے جبکہ سکولوں میں بھی ڈاکٹرز کی تعیناتی کی جائے جو بچوں کی بیماریوں اور انکے حفاظتی ٹیکوں کے بارے میں انکا ریکارڈ مرتب رکھیں تمام سرکاری ہسپتالوں کا نظام کمپیوٹر رائزڈ کرکے آن لائن کیا جائے 4 سو ڈاکٹر جو اس وقت بغیر تنخواہ کے کام کررہے ہیں۔
انہیں مستقل کرکے انکی تنخواہیں دی جائیں جبکہ ایک میڈیکل آفیسر کی تنخواہ کم از کم 90 ہزار تک بڑھانے کے ساتھ ساتھ پروفیسر ڈاکٹر زکی تنخواہیں بھی کم از کم چار لاکھ روپے تک کی جائیں ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کوسیکیورٹی فراہم کی جائے اور ڈاکٹرز میس بھی بنایا جائے اگر اس پر عمل نہ کیا گیا تو سنیئر ڈاکٹرز پہلے ہی ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔
جونیئر ڈاکٹرز بھی بددل ہوجائیں گے ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن کے تحفظات اپنی جگہ مگر یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ اس ملک میں جہاں غربت انسانوں کی ہڈیوں میں رچ بس چکی ہو دکھاوے کو سب اچھا نظر آرہا ہوسرکاری ادارے عوام کا استحصال کرنے میں مصروف ہوں جہاں حکومت مصیبت آنے کے بعد سوچنا شروع کرتی ہو وہاں پر مسائل ہی مسائل پیدا ہوتے رہیں گے جب تک کہ ہم اچھے لیڈروں کو انتخاب نہیں کریںگے۔