دنیا بھی عجیب درسگاہ ہے کوئی چاہے یا نہ چاہے یہ اپنے سبق پڑھاتی رہتی ہے۔ ذی الحجہ کی ستائسویں تاریخ ہے اور ظاہر ہے کہ چاند نہ ہونے کی وجہ سے رات بھی تاریک ہے، دور دور تک خاموشی اور سنسناہٹ کا راج نظر آتا ہے۔ سونے کی کوشش کرتے ہوئے ٹی وی کا ریموٹ ہاتھ میں تھامے کروٹیں بدل رہا تھا مگر نیند کی دیوی نہ جانے مجھ سے کیوں روٹھ گئی تھی۔ یہ اندہناک لمحہ بے بسی کے تھے شاید! یا پھر لاچاری کے کہ اُن فیصلوں کے بارے میں صرف سوچ سکتے ہیں مگر اس کے لئے کچھ کر نہیں سکتے۔ بہت زیادہ ہوا تو اس حقائق سے پردہ اُٹھانے کے لئے اپنے قلم کے زور آور لکیروں کو تحریر کی شکل دے کر اخباروں کی زینت بنا سکتے ہیں۔ اور پھر دعائیں مانگتے ہوئے کہ یا اللہ! میرے وطن کو ترقی یافتہ ملکوں کی صفوں میں شامل کر دے یہاں کے عوام کو تمام بنیادی سہولیات فراہم فرما دے۔ پھر نجانے کب نیند کی دیوی نے مجھے گلے لگا لیا اور نمازِ فجر کے وقت آنکھ کھلی۔ رات کی سوچ پھر بیدار ہوئی تو قیمتوں کے اضافہ اور کمی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے یہ کالم لکھنے کا سعی کی۔ کل ہی کی بات ہے کہ ہمارے ارضِ وطن کے عوام کو پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کا خبر سنایا گیا۔
یعنی کے اونٹ کے منہ میں زیرہ دے دیا گیا۔ پیٹرول موجودہ حکومت کے وجود میں آنے سے قبل دو ہندسوں پر مشتمل تھا مگر آج تین ہندسوں پر بُرا جمان ہے۔ لگ بھگ ایک سو چودہ روپئے فی لیٹر۔ غالب گمان بھی یہی ہے کہ موجودہ حکومت نے پہلی بار پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا ہے اور وہ بھی صرف اڑتالیس پیسے فی لیٹر۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں نے اپنی رعایا کو شطرنجی دنیا کے مہرے میں تبدیل کر دیا ہے جب جی چاہا جیسے جی چاہا اُ ن پر اپنی عتابوں کا رُخ موڑ دیا۔ یا پھر اُن کا مذاق بنا دیا۔ کیا 48 پیسے کی کمی مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام کے ساتھ مذاق نہیں، یعنی کہ کمی کا ترانہ بھی بجا دیا اور ریٹ وہیں کے وہیں ہے۔ اس فیصلے پر صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں سبحان اللہ! جن حالات سے ملک کے عوام آج گزر رہے ہیں ۔ وہ بہت کسمپرسی کی سی ہے۔ ورنہ ماضی پر رشک کرتے ہوئے، خود پر پڑی بپتا کا رونا نہیں روتے لیکن افتاد زمانہ کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے مفاد پرست سیاست اور خود غرضیوں کا قبضہ ہوتا گیا۔
عوام کا دل خون کے آنسو روتا رہا اور بتدریج ان کے حالات اتنے ناگفتہ بہ ہوتے گئے کہ عوام نہ گھر کے رہے اور نہ گھاٹ کے۔ سب کو معلوم ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے سوئی سے لے کر جہاز تک کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ جس سے ہمیشہ کی طرح مہنگائی کی نئی لہر جنم لیتی ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو جاتا ہے۔ مگر پھر بھی نجانے کیوں اوگرا عوام پر ایسی بجلیاں گراتی رہتی ہے۔ وہ عوام جن کے دم سے یہ حکمران ہیں، یہ ادارے ہیں، اور خاص کر یہ ملک ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں نے ہمیشہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو غریبوں پر ڈرون حملہ قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ اس سے غریبوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ ان رہنمائوں کا یہ بھی کہنا ہوتا ہے کہ حکمران غریبوں پر مہنگائی کے بم برسانے کے بجائے کرپشن اور لوٹ مارکا سدِباب کریں اور قیمتوں میں اضافہ واپس لیں۔ دیکھا آپ نے آپ کی آواز ایوانوں تک پہنچ چکی ہے اور آج پیٹرول کی قیمت میں 48 پیسے کی کمی کر دی گئی ہے۔ اس کمی سے غریب یقینا امیری کے خواب دیکھ سکے گا۔اور اپنے حالات ضرور بدلنے کی جستجو کر لے گا۔
عوام کی سوچیں کافی حد تک درست سمت میں محو سفر ہے کہ مہنگائی اس وقت بلند ترین سطح کو پہنچ چکی ہے۔ ملک بھر میں کھانے پینے کی بنیادی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ یقینا عوام کے لئے مخصوص تنخواہوں میں گزارا کرنا ممکن نہیں رہا۔ ہمارے محترم جاوید چوہدری صاحب نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ ” ہم صرف گندم ہی کیوں کھاتے ہیں” اور وجوہات بھی اس کی تحریر کی ہیں کہ آٹا اگر مہنگا ہے تو چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ بہت اچھی بات ہے مگر آپ یہ بھی سوچیں کہ ابھی عوام روٹی کے لئے صرف گندم کی طرف مائل ہیں تو اس کے ریٹ کہاں تک پہنچا دیئے ہیں ارباب نے۔ جب یہی عوام باجرے اور مکئی کے آٹے کی طرف رُخ کریں گے تو اس کی قیمت بھی بڑھانے میں ہمارے حکمران لمحے بھر کی تاخیر نہیں کریں گے۔ آنکھوں میں حسین مستقبل کے خواب سجائے یہ عوام آج غربت کی لکیر سے نیچے کی طرف آ چکے ہیں۔اور کوئی ان کی داد رسی کرنے والا نہیں۔
IMF
آئی ایم ایف نے خود ایک اخبار میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ آنے والے سالوں میں روپے کی قدر گھٹنے اور بجلی پس سبسٹڈی کے خاتمے سے معاشی ترقی کی شرح میں کمی آجائے گی اور پاکستان میں مہنگائی اور بیروزگاری بڑھ جائے گی۔موجودہ حکمران جب اپوزیشن میں تھے تو یہ دعوے کرتے تھے کہ ہم حکومت میں آکر کشکول توڑ دیں گے۔ مگر یہ کیا ہوا، عوام نے تو آپ کو اقتدار کا تاج پہنا دیا مگر وہ دعوے کیوں پورے نہیں کئے گئے۔ اور کیوں حکومت میں آتے ہی اربوں ڈالر کے قرض لے لیئے گئے۔ خیر جو ہوا سو ہوا۔ اب بھی ایفائے عہد کا وقت گزرا نہیں۔ کشکول توڑ کر اپنے ملک کو پیروں پر کھڑا کریں اور مہنگائی میں کمی کریں، بیروزگاری دور کرائیں تو یہ عوام آج بھی آپ کو کندھوں پر بٹھانے میں تامل کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ ہم کیا پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہمارے ملک میں دن بہ دن مہنگائی کی شرح بڑھتی ہی جا رہی ہے، اور اس پر کسی کا کوئی کنٹرول بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔ مہنگائی کے ساتھ ساتھ بے روزگاری اپنے عروج پر ہے۔ روزگار مہیا ہو تو بھی لوگ مہنگائی کو جھیل لینے کی کوشش کریں مگر یہاں تو روزگار بھی ناپید ہے۔ بے روزگاری کی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔
جہاں روز انہ کی سطح پر ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں اربابِ اختیار بھی اس ضروری مسئلے کی طرف سے چشم پوشی اختیار کیئے ہوئے ہیں۔ سادہ دل عوام موجودہ الیکشن کے بعد پُر امید تھی کہ اب شاید ان کے مسائل ختم ہونگے مگر کمی کا تو شائبہ تک نہیں مل پایا، ہاں! اس میں شدید نوعیت کا اضافہ ضرور ہو رہا ہے۔ اس غربت کی وجہ سے لوگ اپنے بچے بیچنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ اگر بچے نہیں تو ہسپتالوں کے باہر جا کر دیکھئے تو اپنے جسموں کے کارآمد اعضاء بیچ رہے ہیں تا کہ کسی طرح اپنے بچوں کو روٹی کھلا سکیں۔ الیکشن کے پہلے کے وعدے اور الیکشن کے بعد اس کے ایفائے عہد میں یہ واقعی کھلا تضاد ہے۔
اختتامِ کلام میں ملک کے اعلیٰ اربابِ اختیار سے یہی گزارش ہوگی کہ وہ مہنگائی اور بے روزگاری جیسے دیرینہ مسئلے کے ساتھ ساتھ لوڈ شیڈنگ سے بھی عوام کو جلد از جلد نجات دلائیں۔ یہ یاد رہے کہ آپ سب ملک کے اِن غریبوں کے ووٹوں سے منتخب ہوکر اسمبلیوں میں گئے ہیں۔ اور ان ہی کے ووٹوں کی بدولت آپ اِن پر حکمرانی بھی کر رہے ہیں۔ کیا یہ حکمرانی دوبارہ نہیں کرنا آپ نے، جواب میں ہاں! میں ہے نا، تو جناب ایسے بنیادی مسائل کے حل میں دیر نہ کریں بلکہ اس راستے میں جو بھی مشکلات حائل ہیں اسے اپنی پہلی ترجیح میں دور کریںتاکہ عوام کا جو اعتماد و اعتبار آپ سے اُٹھ چکا ہے یا اُٹھ رہا ہے وہ دوبارہ قائم و دائم ہو سکے۔ اللہ رب العزت آپ سب کو عوام کی فلاح و بہبود اور اس ملک سے مہنگائی، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ، بے امن و امانی کے خاتمے کے لئے کام کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین