سب سے پہلے آپ یہ بتائیں کہ آپ کے گھر پر کوئی قبضہ کرلے توآپ کیا کریں گے؟آپ کے پاس طاقت بھی ہو اور اختیار،آپ یقینا قبضہ کرنے والے کو تہس نہس کرکے رکھ دیں ۔یہی کام دریاء کرتے ہیں تو آپ لوگ پریشان ہوجاتے ہو۔ حکومتی نااہلی کی وجہ سے لوگوں نے دریائوں کے اندر گھر اور کھیت آباد کرلئے ہیں ۔دریاء پلٹ کر دیکھتے ہیں تو اُن کے گھر پر قبضہ ہوچکا ہوتا پھر کیا ہوتاہے دریاء اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ طاقت کو استعمال کرکے قابضین کو تہس نہس کردیتے ہیں ۔سیلابوں کی سب بڑی وجہ یہی ہے۔اب وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے کہ سیلابی پانی خشک ہونے سے قبل ہی مقصانات کا ازالہ کر دیا جائے گا۔
جبکہ ایساہرگز ہرگز ممکن نہیں بھلا جس ماں کے معصوم بچے سیلاب کے پانی بہہ گئے اُس کے نقصان کا ازالہ کون کرسکتا ہے؟ وہ بیٹیاں جنوں نے کھی گھر سے باہر پائوں نہیں نکالا سیلاب نے اُنہیں کھلے آسما ن تلے ننگے سرلاکھڑاکیا ہے کیا اُن پردہ داری کے ہونے والے نقصانات کا ازالہ ممکن ہے ؟آپ پہلے یہ فیصلہ کرلیں کہ آپ نے سیلابوں سے جان چھوڑانی ہے یا عذابوںسے؟یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ سمندراور دریاء اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھمے ہوئے ہیں ورنہ سمندراور دریائوں کو کنٹرول کرنا پوری کائنات کی تمام مخلوقات کے بس کی بات نہیں ۔جب یہ طے ہے کہ سمندر اور دریاء اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھمے ہوئے ہیں تو پھر یہ بھی جان لیں کہ جب ان کا پانی آپے سے باہر ہوتا ہے۔
تو اُس کی وجہ ہماری نافرمانی ،گستاخی اور منافقت جیسے گنا ہ ہیں۔اصل میں یہ سیلاب نہیں عذاب ہیں۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیلاب نے چاروں طرف تباہی مچا رکھی ہے اور ہمیشہ کی طرح بے بسی کے عالم میں متاثرین سیلاب کی امداد کی کوشش کم اور باتیں زیادہ کررہے ہیں۔سیلابی ریلے جہاں جہاں سے گزر تے جاتے ہیں ہرسال کی طرح وہاں وہاں تباہ کاریوں کی طویل داستان رقم کرتے جارہے ہیں۔
سیلاب کا بڑا ریلا جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے اس کی تباہ کاریاں بڑھتی ہیں جارہی ہیں ۔حالیہ سیلاب نے شمال مشرقی پنجاب میں درجنوںانسانی آبادیاں،کھیت کھلیان اور لاکھوں پالتوجانوربہا لیجانے کے بعد گزشتہ روز جنوبی پنجاب کو بھی تباہ و برباد کردیا ہے۔روزانہ کی بنیاد پر 20سے30تک انسانی زندگیاں سیلاب کی نظرہورہی ہیں۔بہت سی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئی اور بچ جانے والی بستاں بھی اس قابل نہیں رہی کہ اُن میں رہائش اختیار کی جاسکے۔ہزارون ،لاکھوں افراد جن میں خواتین،بزرگ اور بچے بھی شامل ہیں سیلاب سے متاثر ہوکر کھلے آسمان تلے بے یارومددگار پاک فوج اور حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔پاک افواج کے جوان ہر مقام پر سیلاب متاثرین کی مدد کرتے نظرآتے ہیں جبکہ حکمران میڈیا بیانات جاری کرکے خانہ پوری کرتے رہتے ہیں۔
Shahbaz Sharif
وزیراعلیٰ پنجاب اکثر مقامات پر بڑے بڑے بوٹ پہنے کبھی سیلابی پانی میں کھڑا تو کبھی کشتی میں لوگوں کو ریسکیو کرتا سیلاب متاثرین کی مدد کرتے نظر آتا ہے ۔حکومت مخالفین کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف یہ سارے کام فوٹو شوٹ کیلئے کرتا ہے ورنہ اُسے عوام کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے۔مخالفین کی رائے کو درست بھی مان لیا جائے تب بھی کسی حد تک وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ کم از کم اپنے آرام اور سکون کو چھوڑ کر عوام کے درمیان پہنچ کر فوٹو شوٹ کی بہانے ہی سہی کسی کی مدد تو کرتا ہی ہے۔
ویسے بھی سودی نظام میں دھنسے حکمران کسی کیا مدد کرسکتے ہیں وہ تو خود اپنے لئے پریشان ار بے قرار رہتے ہیں۔اصل مدد گار تو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے جس کا وعدہ سچا اور پکا ہے ۔اللہ تعالیٰ کسی انسان کو تکلیف نہیں دیتا بلکہ ہم اپنے لئے خود ہی عذاب کا بندوبست کرتے رہتے ہیں ۔انسان اشرف المخلوقات یعنی تما م مخلوقات سے افضل ہے۔سمندر، دریا، ہوائیں، زلزلے،طوفان،آگ اور دیگر تمام مخلوقات میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ انسان کو نقصان پہنچا سکیں پر جب انسان خود ہی اللہ تعالیٰ کے عذاب کو پکارے تو پھر کون ہے جو اُسے بچا پائے۔
جس قدر لوگ دنیا کے حکمرانوں کو مدد کیلئے پکارتے ہیں کہیں رب رحمٰن کو پکاریں تو اُن پر کبھی قدرتی آفات نازل نہ ہوں بلکہ اُن پر رحمت کے در کھل جائیں ۔لوگ اپنے والدین کے حقوق پورے نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ اُن پر دنیا کی نعمتوں کی برسات ہوجائے۔پوری قوم اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرے ،معافی مانگے،رسولۖ کی تعلیمات پر عمل کرے ،نماز قائم کرے جیسا کہ حکم ہے ،اُولیا اللہ کا ادب و احترام کرے۔
Floody Towns
لقمہ حال کھائے، امانتیں حق داروں کو لوٹا دے، سود کھانابن کرے ،عدل وانصاف کرے، ماں باپ کا احترام اور خدمت کرے اُن کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کرے، اپنے بہن بھائیوں رشتہ دارو اور ہمسایوں کا خیال رکھے، کسی کا حق نہ کھاے، تو آسمان سے مد د نازل ہوگی اور ایسے بستیاں بس جائیں گی جیسے کبھی اُجڑی نہ تھیں ۔یہ سیلاب،زلزے اور طوفان تو گستاخ قوموں پر نازل ہوا کرتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے اُن کو یہ تمام کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔