ابتر معاشی صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لئے کیا ٹھوس اقدامات کئے جارہے ہیں؟ حکومتی حکمت ِ عملی کیا ہوگی؟ یہ جاننا عوام کا حق ہے اس لئے عوام کو حقائق بتائے جائیں جناب ِ وزیر ِ اعظم محض باتیں بنانے اور روز انہ پریس کانفرنسیں کھڑکانے کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا زمینی حقیقتوں کے مطابق فیصلے کرناہوں گے ورنہ آپ ناکام ہوجائیں گے کیونکہ ہر آنے والا دن نئی نئی پریشانیاں لے کرآرہاہے اب نئی پریشانی کی بات بھی جان لیجئے۔۔۔ پاکستان میں مہنگائی مزید بڑھے گی ایشیائی ترقیاتی بینک نے خدشہ ظاہر کرکے عوام اور حکومت دونوں کو پریشان کردیا جبکہ وزیر ِ اعظم عمران خان قیمتوں میں مسلسل اضافہ پرانتہائی افسردہ ہیں ۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی خبردار کیا ہے کہ گندم، چینی اور اشیائے خوردنوش کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کا باعث بن سکتا ہے۔
پاکستانی معیشت سے متعلق أوٹ لک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرونا وبا ء کے باوجود پاکستان کی معاشی سرگرمیاں فروغ پا رہی ہیں، نجی سرمایہ کاری کو تحفظ کی فراہمی سے کاروباری سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں، بہتر پالیسیوں کے باعث مینوفیکچرنگ کے شعبے کی کارکردگی میں نمایاں بہتری ہوئی ہے جبکہ مالیاتی پیکج اور بہتر پالیسیوں کے باعث پاکستان کی برآمدات بڑھ رہی ہیں، اس لئے رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی معاشی شرح نمو 4 فیصد تک رہنے کی توقع ہے، صنعت، تعمیرات اور مینوفیکچررنگ کے شعبوں سمیت زرعی شعبے کی بھی نمایاں بہتری کا امکان ہے لیکن رواں مالی سال کے دوران مہنگائی کی شرح بڑھنے کا امکان ہے، گندم، چینی اور اشیائے خوردنوش کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کا باعث بن سکتا ہے شاید اسی بناء پروفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہناہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ سیمنٹ، گھی میں کارٹلائزیشن ہو رہی ہے۔
عوام کو آٹا، گھی، چینی، اور دالوں پرسبسڈی دیں گے۔ چینی 90 اور آٹا 55روپے کلو ملے گا۔ گھی کی قیمت بھی 45سے 50روپے کلو کم کریں گے ہمیں اعتراف ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام سے مہنگائی بڑھی۔ تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہوا، گاڑیوں کی درآمد کی وجہ سے ڈالر مہنگا ہوا۔ پہلے افغانستان سے ڈالر پاکستان آتا تھا اب یہاںسے افغانستان جا رہا ہے۔ پر تعیش اشیاء کی درآمد روکنے کے لئے بعض چیزوں پر سو فی صد کیش مارجن کی شرط اور ریگولیٹری ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔ اسی مہینے کامیاب پاکستان پروگرام لانچ ہو جائے گا۔ آئی ایم ایف سے بات چیت ہو گی مگر اپنے اصولوں پر کھڑے ہیں بھارت، سری لنکا، نیپال، ویتنام ہم سے مہنگا پیٹرول بیچ رہے ہیں۔ کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا کی سپلائی لائن اثر انداز ہوئی۔ دنیا بھر میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں چینی اس وقت 430 ڈالر فی ٹن ہے۔ عالمی مارکیٹ میں 2018ء میں چینی 240 ڈالر فی ٹن تھی۔ ہم غریب عوام کو فوڈ سبسڈی دیں گے۔ احساس پروگرام کے ذریعے ہم پناہ گاہ بنا رہے ہیں۔ انتظامی طور پر کسان سے ریٹیل تک چیک کر رہے ہیں کہ کون پیسے بنا رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے ہدائت کی ہے کہ میڈیم اور لانگ ٹرم پلان بنائیں تاکہ مزید بحران پیدا نہ ہوں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہم نے صرف 13، 14 فیصد بڑھائی ہیں۔ مڈل مین کا کردار ختم کرنے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں، 2 سال قبل مہنگائی کی شرح شہری علاقوں میں 15 فیصد اور دیہی علاقوں میں 17.8 فیصد تھی جسے حکومت کم کرکے بالترتیب 10 فیصد اور 9.1 فیصد پر لانے میں کامیاب رہی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کوکنگ آئل پر ٹیکس ریلیف دے گی۔ گندم کی حکومت کو لاگت 2040 روپے پڑ رہی ہے اور ہم اسے 1950 روپے میں فراہم کر رہے ہیں۔ حکومت 123 روپے فی لیٹر پیٹرول فراہم کر رہی ہے پڑوسی ملک بھارت میں پیٹرول 250 روپے فی لیٹر مل رہا ہے اور خطے کے تمام ممالک سے ہم سستا پیٹرول فراہم کر رہے ہیں۔
بجٹ میں 600 ارب پیٹرولیم لیوی کا ہدف ہے جس میں سے ہم نے ایک روپے بھی اب تک اکٹھا نہیں کیا ہے۔ جو 300 سے 400 فیصد تک کا منافع کمارہے ہیں، یہ قابل قبول نہیں اسی لئے پرائس کنٹرول کمیٹی، مجسٹریٹ کو واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی بیشی ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی 2018 کے بعد آئی ایم ایف پروگرام کے معیشت پر اثرات پڑے لیکن اب مہنگائی کی شرح دو سال میں 9.2 فیصد سے کم ہوکر 8 فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔ کرونا سے ہر چیز کی قیمتوں پر اثرات مرتب ہوئے ہیں ہماری توجہ منافع خوری کے لئے اجارہ داریاں ختم کرنے پر ہے۔
یہ ساری باتیں اینی جگو درست ہوسکتی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی وارننگ اور وزیر ِ خزانہ کے اعتراف کے بعد ابتر معاشی صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لئے کیا ٹھوس اقدامات کئے جارہے ہیں؟ حکومتی حکمت ِ عملی کیا ہوگی؟ یہ جاننا عوام کا حق ہے اس لئے عوام کو حقائق بتائے جائیں جناب ِ وزیر ِ اعظم محض باتیں بنانے اور روز انہ پریس کانفرنسیں کھڑکانے کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا زمینی حقیقتوںکے مطابق فیصلے کرناہوں گے ورنہ آپ ناکام ہوجائیں گے پہلے ہی آپ کی حکومت اور اس کی تین سالہ کارکردگی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں آپ کے سارے وزیر مشیر پھر انہی پارٹیوںمیں شامل ہوجائیں گے ماضی میں جن کا حصہ تھے ناکام صرف عمران خان آپ ہوں گے اس لئے آپ کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔