تحریر : شکیل مومند بھوک کے شکار ممالک کی فہرست میں پاکستان ایک سو اٹھارہ ملکوں میں سے پاکستان کا نمبر ایک سو ساتواں ہیں۔ جبکہ چین انتیسویں نمبر پر ہے۔ افریقہ میں بھوک کی شرح سب سے زیادہ بلند ہے پورے پاکستان میں ساٹھ فیصد گھر یا خاندان ایسے ہیں جو غربت وسائل یا کسی اور وجہ سے کھانے پینے کے اشیاء تک رسائی نہیں رکھتے۔ اور یوں مناسب خوراک سے محروم ہیں۔ ایسے گھرانوں یا افراد کو غذائی عدم تحفظ کا شکار کہا جاتا ہے۔
پاکستان جیسے غریب اور پسماندہ ملک کے عوامی نمائندوں کا اپنی مراعات میں اضافہ کرانا بظاہر کوئی غیر آئینی نہیں لیکن اسے عوام شاید پسندیدگی کی نگاہ سے نہ دیکھیں یہ بات توسچ ہیں کہ پاکستان میں قومی اسمبلی سینٹ اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑانے والے خوشحال خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔یہاں تک کہ بلدیاتی الیکشن میں چئیرمین کی الیکشن لڑنے والے بھی اپنے الیکشن پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں بہت کم ایسے ہیں جن کا تعلق متوسط یا نچلے طبقے سے ہوگا بلکہ شاید ایسے لوگوں کی تعداد چند 4سے 6سے زیادہ نہیں ہوگی پارلمنٹرین کا لائف سٹائل شاہانہ ہے۔ انھیں رہائش کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔
ترقیاتی فنڈز کی داستان الگ ہے۔ سرکاری ملازمتوں کی کہانیاں بھی سب کو پتہ ہے ہو نا تو یہ چاہئے تھا کہ عوامی نمائندے ایثار قربانی کی مثال بنتے ہوئے اپنے سرکاری مراعات اور مالی فوائد ترک کردیں لیکن انہوں نے وہی کام کیا جو سرکاری افسر دیگر سرکاری عہدیدار کرتے ہیں۔ یعنی صرف اپنی مراعات اور فوائد کیلئے جدوجہد کرنا ۔ کیا مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت یہ وضاحت کرسکتی ہے کہ اُس نے نچلے درجے کے سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین بے روزگار نوجوانوں اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی فلاح وبہبود کیلئے کیا کارنامہ انجام دیا ہے۔
Poverty in Pakistan
صورتحال یہاں تک ہے کہ نچلے درجے کے سرکاری وغیر سرکاری ملازمین جن میں چوکیدار ، سیکورٹی گارڈ ، آفس بوائے ، فیکٹری مزدو اور دیگر عملہ شامل ہیں۔ انکی تنخواہ اتنی کم ہے کہ انکے لئے زندگی کی رینگتی ہوئی گاڑی کو چلانا مشکل ہے۔ یہ لوگ نہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دے سکتی ہے اور نہ صحت کی بہتر سہولیات آج پاکستان میں مزدور کو آٹھ ہزار سے دس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ مل رہی ہے۔ جبکہ بیورو کریٹس اور دیگر اعلیٰ افسران تنخواہیں اور سہولیات کی مد میں لاکھوں روپے کمارہے ہیںکرپش الگ ہے۔
عالمی ادارے بھی بار بار توجہ دلاچکے ہیں کہ پاکستان میں غربت کی لکیر کو خاص کر قبائلی علاقوں میں تعداد بڑی تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مہنگائی کایہ عالم ہے کہ غریب آدمی خوراک دالیں بھی اسکی پہنچ سے باہر جاچکے ہیں۔ بیشتر ارکان اسمبلی کا لائف سٹائل شاہی خاندان کے کسی فرد سے کم نہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے تنخواہوں میں چار سو فیصد اضافہ کردیا اور مرکزی حکومت نے تنخوہوں میں ایک سو پچاس فیصد اضافہ کر دیا۔
وفاقی وزیر کی ماہانہ تنخواہ دو لاکھ وزیر مملکت ایک لاکھ اسی ہزار، رکن پارلیمنٹ چوالیس ہزار سے بڑھکر ایک لاکھ پچاس ہزار ،چئیرمین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی ایک لاکھ انیس ہزار سے بڑھکر دو لاکھ پانچ ہزار اس اضافے سے قومی خزانے پرسالانہ چالیس کروڑ کا اثر پڑے گا۔ آخر ارکان اسمبلی کے تنخواہوں میں اضافے کی ایسی کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ عوامی مسائل کو پست پناہ ڈال کر سب سے پہلے اس اضافے پر توجہ دیں۔