گر شاہ کے درباری شاہوں سے لڑے ہوتے تو آج یہاں پر ہم ہرگز نہ کھڑے ہوتے ساحل پہ کھڑے ہو کر موجوں سے تکلم کیا دریا میں اتر جاتے طوفاں میں گھرے ہوتے منجدھار میں کشتی ہے اور پار بھی جانا ہے پتوار اٹھا لیتے موجوں سے لڑے ہوتے دو چار تھپیڑوں نے بدحال کیا تم کو تم جان لڑا دیتے تم ڈٹ کے کھڑے ہوتے تم ان کے محافظ تھے یہ فرض تمہارا تھا تم سب کو بچا لیتے تم سب سے بڑے ہوتے یہ پھل ہے تعصب کا یہ بیج نہ تم بوتے فرقوں میںبٹے رہتے نہ اتنے دھڑے ہوتے سنجیدہ سیاست کا اب وقت گیا شاید آواز میں سرہوتا ہاتھوں میں کڑے ہوتے دشمن کے سبھی نیزے سینے میں اتر جاتے او ر زخم محبت کے ماتھے پہ جڑے ہوتے کل حشر میں انجم یہ نہ کہتا ہوا ملتا دنیا میں نہ ہم ایسے جھگڑوں میں پڑے ہوتے