اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں حالیہ کمی کے بعد روزانہ کی بنیادوں پر ٹیسٹنگ میں بھی بہت کمی آگئی ہے۔ تاہم طبی ماہرین ابھی بھی جوش کے بجائے ہوش سے کام لینے پر زور دے رہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے پاکستانی حکام کو ہدایات دی تھیں کہ وہ روزانہ پچاس ہزار کووڈ انیس کے ٹیسٹ کروائے۔ ایک ماہ قبل پاکستان میں روزانہ کی بنیادوں پر اکتیس ہزار تک ٹیسٹ کیے گئے جبکہ گزشتہ اتوار کو اس جنوبی ایشیائی ملک میں ٹیسٹ کی تعداد کم ہو کر بیس ہزار تک پہنچ گئی۔
وزیر اعظم پاکستان کے انسداد کووڈ 19 کے خصوصی مشیر فیصل سلطان کے بقول، ” آپ کو کوئی جادوئی عدد نہیں حاصل کرنا ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی ممکنہ تعداد تک پہنچا جا سکے۔ ٹیسٹ کی مانگ میں کمی کی اصل وجہ کورونا کے وبا کے پھیلاؤ میں واضح کمی بنی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستان میں اکیس جولائی منگل کے روز تک 265,082 انفیکشن اور کووڈ 19 کے سبب ہونے والی 5,599 اموات ریکارڈ ہوئی ہیں۔
ایمپیکٹ ریسرچ انٹرنیشنل سے تعلق رکھنے والے ایک محقق فیصل زبیر عباسی COVID-19 کے دوران جنوبی ایشیا میں صحت کے نظام کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ عباسی کا کہنا ہے، ” لوگ اب تک ٹیسٹنگ کے بغیر ہی گھروں میں قرنطینہ کو ترجیح دے رہے تھے۔‘‘ انہوں نے کورونا وائرس کے متاثرہ افراد کے موجودگی کی حقیقت سے انکار کو ایک خود فریبی قرار دیتے ہوئے کہا، ” ہمیں مستقبل میے ہر طرح کے چیلنجز کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔‘‘
کورونا کی ٹیسٹنگ اب بھی غریب عوام کی رسائی سے دور ہے۔
پاکستان کے جنوبی، بندرگاہی شہر کراچی میں قائم بقائی میڈیکل یونیورسٹی کے پروفیسر آف میڈیسن ڈاکٹر طاہر حسین نے کورونا کی وبا کی موجودہ صورت حال کا تجزیہ پاکستان میں اس وقت کے موسم اور درجہ حرارت کے تناظر میں کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت گرمی کی شدت عروج پر ہے اور درجہ حرارت اپنی حدوں پر پہنچا ہوا ہے اور ہوا بہت زیادہ مرطوب ہے۔ حسین کہتے ہیں، ”سائنسی طور پر یہ ممکن نہیں کہ ہوا میں پائے جانے والے آلودہ ذرات، قطرے یا ایروسولز وغیرہ کے ذریعے وائرس کی منتقلی پر ماحول، درجہ حرارت اور گرم فضا اثر انداز نہیں ہوگی۔ ڈبلیو ایچ او نے اب سانس اور جسمانی رابطے کو خاموش قاتل قرار دیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر طاہر حسین کا مزید کہنا ہے کہ اگر عوام سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سے فاصلے پر رہیں، اپنے منہ اور ناک کو ہاتھ نہ لگائیں، جتنا زیادہ ہو سکے ہاتھ صابن سے دھوتے رہیں اور اپنی اور اپنے آس پاس کے دیگر افراد کی صحت کے تحفظ کا احترام کرتے ہوئے ماسک پہنے رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ چند ہفتوں کے اندر کورونا کیسز کا گراف تیزی سے نیچے آجائے گا۔
دریں اثناء کراچی کے سول ہسپتال میں بھی کورونا کیسز میں واضح کمی بتائی گئی ہے۔ ڈوئچے ویلے کو اس بارے میں بیان دیتے ہوئے ڈاکٹر حنیا جاوید نے بتایا، ”سول ہسپتال میں بھی کووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد ایک دم سے گری ہے۔ اس سے قبل ہمارے پاس آئی سی یو میں کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے بیڈ اور وینٹیلیٹر کی شدید کمی تھی۔‘‘
ماسک کے بغیر اور سوشل ڈسٹنسنگ کا خیال کیے بغیر پھرنا سب کے لیے خطرہ ہے۔
ایسے مریض جن کے اندر کووڈ 19 کی علامات بظاہر نہیں پائی جاتیں یا جنہیں ‘غیر علاماتی مریض‘ کہا جا سکتا ہے ان کے ذریعے بھی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔کراچی انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں سینیئر لکچرر ڈاکٹر مدیحہ سبحان نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت میں کہا، ” میں اس بات سے اتفاق کرتی ہوں کہ سماجی دوری، ماسک پہننے، ہاتھ دھونے اور اپنے چہروں کو نہ چھونا، آنے والے کئی مہینوں تک ایک معمول بننا چاہیے۔ تاہم میں اس امر پر زور دینا چاہوں گی کہ تمباکو نوشی ترک کرنا، جسمانی وزن کم کرنا، کم از کم آٹھ گھنٹے کی نیند اور روزانہ کم از کم تیس منٹ کی ورزش یا والک ‘ چلنے‘ کی پابندی کے ساتھ ساتھ
وٹامن ڈی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرتے ہوئے اپنی صحت کو بہتر بنانا بھی بہت ضروری ہے۔‘‘ ڈاکٹر مدیحہ سبحان بائیو کیمسٹری میں ایم فل اسکالر ہونے کے ساتھ ساتھ جنرل فیزیشین کے طور پر ٹیلی میڈیسین ایپ ‘صحت کہانی‘ کے لیے اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔
طبی ماہرین اجتماعات اور ہجوم سے خبردار کر رہے ہیں۔
بقائی میڈیکل یونیورسٹی کے پروفیسر آف میڈیسن ڈاکٹر طاہر حیسن نے کچھ گھنٹوں قبل عوام کو ایک پیغام دیا ہے، جس میں انہوں نے ہر فرد سے درخواست کی ہے کہ اس نازک وقت میں جوش نہیں ہوش سے کام لیتے ہوئے آنے والے دنوں میں سماجی دوری کا خاص خیال رکھا جائے۔ اپنے بیان مین انہوں نے خبردار کیا کہ ہجوم میں کورونا کے پھیلاؤ کے خطرات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے عید کے موقع پر حفاظتی تدابیر کا خاص خیال رکھنا اشد ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا، ” ذرا سی بد احتایطی گھر کا گھر صاف کر دیتی ہے۔‘‘