تحریر : فاطمہ عبدالخالق سب کے منہ سے ترقی کی بات سنتے سنتے آنکھوں میں سہانے سپنے انگڑائیاں لینے لگتے ہیں آنکھوں کے سامنے ایک اچھی ریاست کا نقشہ جھلمل کرنے لگتا ہے۔ ترقی؟ لیکن کیسی ترقی کہاں کی ترقی؟ کیا کوئی اپنے دین کو پس پشت ڈال کر ترقی کر سکتا ہے؟ جب کسی قوم کا زوال شروع ہوتا ہے تو سب سے پہلے ان کی دینی عقائد کمزور پڑھنے لگتے ہیں اور آہستہ آہستہ ان کا خاتمہ ہونے لگتا ہے ہمارے زوال کے آثار معاشرے پر تیزی سے مرتب ہو رہے ہیں لیکن ہم بالکل آٹھارویں صدی کے مغل حکمرانوں کی غرور کے نشے سے چور عیش و عشرت کے لبادوں میں کھو رہے ہیں جیسا مغل حکمرانوں کو غرور تھا کہ انہوں نے سو سال انگریزوں پہ حکومت کی ان کا تختہ کون مائی کا لعل پلٹ سکتا ہے ہاں واقعی یہ بات تو ماننے کے لائق ہے کہ ان کا تختہ کوئی مائی کا لعل نہیں پلٹ سکتا تھا جب تک وہ خود انہیں اجازت نا دیتے آپ بھی شاید مجھے سرپھری سمجھ رہے ہوں لیکن بات یہی ہے سو سال حکومت کرنے والے مسلمان حکمرانوں کا تختہ انگریزوں نے نہیں بلکہ مسلمانوں نے خود پلٹا تھا انہیں ان کا غرور ہی لے ڈوبا تھا کچھ یہی حال آج کل ہمارا ہے ہم نے اپنے اپنے دین بنا لیے ہیں نئی نئی بدعتیں(نعوذ باللہ) پروان چڑھا رہے ہیں اور غرور کے نشے میں ڈوبے ہیں کہ بس ہماری برتری کسی طرح ثابت ہو جائے۔
ہماری یہی آپس کی رنجشیں ہمارے دشمنوں کو موقع دیتی ہیں وہ مذہب کی آڑ میں ہم پہ کاری ضرب لگائیں اور نتیجتا ہمارے ملک میں صرف آپریشن ہوتے ہیں کبھی ضرب العصب کے نام سے اور کبھی ردالفساد کے نام سے، کڑوڑوں کے بجٹ ان آپریشنز پر مختص کئے جاتے ہیں لیکن نتیجہ لا حاصل رہتا ہے، بھوکی عوام کو پوچھنے والا کوئی انسان نظر نہیں آتا ان کے لئے کوئی بجٹ مختص نہیں کیا جاتا. آدمیوں کے ہجوم میں ہم انسان تلاش کرتے رہتے ہیں لیکن خود انسان بننا ہمارے لئے بہت مشکل ہے ۔ہمارا حال ایسا ہے کہ ہم گھر میں بیٹھے دشمن کو دوست بنا کر اپنوں پہ ہی وار کر کے اپنی نام نہاد اناوں کے پرچم لہرا کر تسکین حاصل کرتے پیں اور بعد میں اسے مذہب کا نام دے کر شیطانیت کا پرچار کرتے ہیں فرقوں کا کھیل کھیل کر فتنوں کا بیوپار کیا جاتا ہے ۔بے قصور عصوبتیں برداشت کرتے ہیں اور مجرموں کو آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے آخر ہم پہ دباو ہوتا ہے ہمیں دھمکیاں ملتی ہیں اور ہم ان دھمکیوں سے ڈر جاتے ہیں یا پھر ہمیں لالچ ہوتا ہے قائداعظم کی تصویروں کے عوض ہم بک جاتے ہیں۔
ہم کہتے ہیں شہر کا شہر جلتا ہے تو جلے ہم کیا کریں لیکن ایسا کہتے ہم بھول جاتے ہیں شہر میں ایک گھر ہمارا بھی ہے آگ جب بڑھکے کی تو اسے بھی لپیٹ میں لے گی اور تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی پچھتاوں کے ناگ ڈسنے لگتے ہیں اور زندگی کا محور اک ہی لفظ بن جاتا ہے ۔اے کاش! یوں کر لیا ہوتا، اے کاش! میری عقل پر پتھر نا پڑتے، اے کاش! وہ وقت دوبارہ لوٹ سکے ہم مداواہ کر سکیں لیکن دراصل ہم ٹھوکریں کھانے کے عادی ہو چکے ہیں جب تک کوئی ہمیں ٹھوکر نا لگائے ہماری عقل پر پردے پڑے رہتے ہیں ہم بھول چکے ہیں ہم کس نبی صل اللہ علیہ والہ وسلم کی امت ہیں ہمارا اصل کیا ہے.. ہم منافق بنتے جا رہے ہیں بدترین منافق … ہماری امت مسلمہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ بھی ٹوٹ جاتے ہیں لیکن ہم عیش و عشرت میں مگن رہتے ہیں ہماری بلا سے انہیں جو مرضی کوئی کہے بھئی ہم کیوں اپنی جان خطرے میں ڈالیں؟۔
Hazrat Mohammad PBUH
نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ” مسلمان کی مثال جسد خاکی کی سی ہے جب اس کا ایک عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم اس کی تکلیف پر تڑپتا ہے” لیکن جب انساں میں احساس اور خوف خدا جیسی دولت نہ رہے تو پھر اس سے ہر طرح کی گراوٹ کی توقع ر کھی جا سکتی ہے ۔آج کل ہم بھی گراوٹوں میں گھرے ہویٔے ہیںہمارے سامنے کویٔی حادثہ رونما ہو جایٔے ہم بجایٔے اپنے مسلمان بھایٔیوں کا کندھا بن کر سہارا دینے کے٫ موبایٔلز فون نکال کر ویڈیو بنانے لگتے ہیں اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کر کے تھوڑا گراوٹ کا اظہار کر تے ہویٔے ہم سمجھتے ہیں ہم نے حق ادا کر دیا حالانکہ ہم نے تو اپنے سر گناہ مول لیاہے، کیا ایک مسلمان کا فرض نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھایٔی کی مدد کرے ؟ اس کے عیب چھپایٔے؟ یہ کیسے محب الوطن ہیں جو اپنے وطن کی خوبیاں بیاں نہیں کر سکتے؟ یہ کیسی مسلمانی ہے کہ ہم اپنے ہی مسلمان بھایٔیوں کے خلاف ہیں ہم مغربی معاشرے کی تعریف کرتے ہیں ان کے نظام سے متاثر ہیں ہم ان انصاف کے اصول و ضوابط کو اپنے وطن پر آزمانے سے ڈرتے ہیں۔ ہم اپنے مفاد کا ہی سوچتے ہیں اپنے وطن کے مفاد کا کیوں نہیں سوچتے؟ محب الوطنی بھی ایمان کا حصہ ہے اور ہم ہیں کہ اپنے وطن کی جڑیں اپنے ہی ہاتھوں سے کاٹ رہے ہیں ہم اپنی قوم کو اور اپنے آپ کو اپنے ہی ہاتھوں نیست و نابود کر رہے ہیں نام نہاد ترقی کی آڑ میں خونی کھیل کھیلے جاتے ہیں۔
خون کی ندیاں بہایٔی جاتی ہیں۔ ہم اپنے مسلمان بہن بھایٔیوں کے کٹے پھٹے لاشوں کو بریکنگ نیوز بنا دیتے ہیںاور سنسنی خیز لہجے میں اسے سناتے ہیں، تبھی ایک آنسو گرتا ہے جو کہ فلک کے فرشتوں کا آنسو ہوتا ہے جو انسانی گراوٹ پہ افسوس کرتے ہویٔے گرتا ہے ‘ انسانی غرور پر گرتا ہے کہ خاک کا اک پتلا کیسے کیسے شر پھیلاتا ہے کہ ابلیس بھی اسے استاد کہنے پہ مجبور ہو جایٔے ،خدارا !اب اپنے اوپر ظلم کرنا بند کرو ‘ خدارا اس بے حسی کی چادر کو جلا کر راکھ کر دو اور اس راکھ کی چنگاری سے احساس کی دولت کو گرماو’ اپنے مسلمان بھایٔیوں کا بازو بنو ،وہ تمہارے ہی جسم کا حسہ ہیں ان کی تکلیف’ تمہاری تکلیف ہے ۔خدارا ! جاگو! بے حسی اور غرور کے بت اپنے ہاتھوں ہی پاش پاش کر ڈالو کیونکہ اپنے مسیحا ہم خود ہیں اور اپنے دشمن بھی خود ہیں خدارا! خساروں کی وادی سے نکل آ و’ شیطانیت کے سایٔے میں پناہ لینے والو! جاگ جاو’ اگر خدا رحمان ہے تو وہ قہار بھی ہے ۔ خدارا! اس کے قہر سے ڈرو’ اس کی پکڑ سے بچو۔
انسانی زندگیوں کا سودا کرنا چھوڑ دو’ معصوموں کی معصومیت چھیننا چھوڑ دو۔ کالی بھیڑیں بن کر نا تمہیں زندگی ملے گی نا تمہارا آخرت میں کویٔی حصہ ہو گا۔ سرفروشی کی راہ پر چلو گے تو دنیا تمہارے تلوے چاٹے گی اور آخرت میں بھی سرخرو رہو گے۔ اے میرے قوم کی ماوں، بہنوں اور بیٹیو! اپنے بیٹوں کو، سہاگوں کو اور بھایٔیوں کو بزدلی کا سبق مت پڑھاوَ، بلکہ انہیں سرفروشی کا سبق پڑھاوَ۔ اے میری قوم کی ماوَں، بہنوں اور بیٹیو! اپنی طاقت کو پہچانو! معاشرے پر بڑھتے ہویٔے ظلم کو تم ہی روک سکتی ہو، معاشرے کو تمہاری تربیت کی اشد ضرورت ہے ب۔ باخدا جب مایٔیں اپنے بچوں کو سرفروشی کی تعلیم و تربیت دینے لگیں گی تو ہمارا معاشرہ خودبخود کالی بھیڑوں سے پاک ہو جایٔے گا۔ اے میرے قوم کی ماوَں، بہنوں اور بیٹیو! جاگو! جاگو! جاگو! نیکی کی راجدھانی کے لیٔے، اسلام کی سر بلندی کے لیٔے، پاک وطن کی سلامتی کے لیٔے، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتوں کی حفاظت کے لیٔے ، جاگو! جاگو! جاگو!۔
Fatima Abdul Khaliq
تحریر : فاطمہ عبدالخالق ای میل : fatamakhaliq54@gmail.com