اوسلو (جیوڈیسک) ناروے سے اطلاعات ہیں کہ 2011ء میں 77 شہریوں کو اپنی گولیوں اور بموں سے چھلنی کرنے والے مشہور قاتل آندرس بریوک نے اپنی حکومت کیخلاف ہی غیر انسانی سلوک کا مقدمہ جیت لیا ہے۔ اوسلو کی ڈسٹرکٹ کورٹ کا اپنے فیصلے میں کہنا ہے کہ دوران حراست آندرس بریوک کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا۔ واضح رہے کہ اس خطرناک قاتل نے عدالت کے سامنے انتہائی رنجیدہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے ٹھنڈی کافی، پلاسکٹ کے برتنوں اور برہنہ تلاشی کیخلاف فریاد کی تھی۔ عدالت کی خاتون جج کا رولنگ میں کہنا تھا کہ غیر انسانی اور توہین آمیز سلوک کی ممانت ہمارے معاشرے کی بنیادی قدروں کو ظاہر کرتی ہے۔
مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ قید کے دوران آندرس بریوک کو ٹریڈمل، ایکسرسائز بائیک، پلے سٹیشن، نیوز پیپرز، کتابیں، گھڑیاں، ڈی وی ڈیز اور ایک ساؤنڈ سسٹم بھی مہیا کیا گیا ہے۔ وکلا نے مجرم کی شکایات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آندرس بریوک اب بھی ایک خطرناک مجرم ہے جو اپنے ساتھ جیل میں موجود دیگر قیدیوں کو بالکل ایسے حملوں پر اُکسا سکتا ہے جیسا اس نے خود کیا تھا۔