مہمندایجنسی (شکیل مو مندسے) فاٹا کے عوام کی مرضی کے بغیر کسی نظام کے مسلط ہونے کی مستقبل میں خطرناک نتائج برآمدہونگے ، اصلاحات کمیٹی نے قبائلی عوام کی رائے کے برعکس رپورٹ پیش کرکے عوام کے ساتھ کھلامذاق کیا ہے۔
فاٹا پر قبضہ جمانے والی قوتیں ہمیشہ عبرتناک شکست سے دوچار ہوئیں ، خیبر پختونخواہ کے عوام خود گوناگوں مسائل کے شکارہیں تو وہ فاٹا کے عوام کی کیا خدمت کرینگے، فاٹا کی ترقی کا واحد حل الگ صوبے میں مضمر ہے۔
ان خیالات کا اظہار جمیعت علمائے اسلام مہمندایجنسی کے زیراہتمام ہیڈکوارٹر غلنئی بازار میں احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جے یوآئی فاٹا کے امیر مفتی عبدالشکور، جنرل سیکرٹری فاٹامفتی محمد اعجاز،ایجنسی کے امیر مولانا محمدعارف حقانی، نائب صدر فاٹا وسابق ایم این اے مولانا غلام محمد صادق، سابق سینیٹر حافظ رشید احمد، رہنماء مولانا سمیع الحق، مولانا گلاب نور، ملک اقرار خان، ملک بدری زمان، ملک امیر نواز خان اور دیگر اکابرین نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا اصلاحات کمیٹی نے اسلام آباد میں بیٹھ کر راتوں رات قبائلی عوام کی رائے کے بغیر جھوٹ پرمبنی اور حقائق کے برعکس رپورٹ پیش کردی ہے جوکہ قبائلی کیساتھ سراسر ظلم وزیادتی اور ناانصافی ہے۔
جس کے مستقبل میں فاٹا کے حوالے سے خطرناک نتائج برآمد ہونگے جس کی ذمہ داری فاٹا اصلاحات کمیٹی کے اراکین پر عائد ہوگی کیونکہ اصلاحات کمیٹی میں کوئی بھی قبائلی نمائندہ یا قومی مشران کو سوجھے سمجھے منصوبے کے تحت نظرانداز کیاگیا۔ ان کا کہناتھا کہ فاٹا میں قبائلی عوام کی رائے جانے کیلئے قبائلی علاقہ جات میں آزادانہ ریفرنڈم کیاجائے جس کی روشنی میں فاٹا کے حوالے کوئی فیصلہ کیاجائے۔
انہوں نے کہاکہ فاٹا کو علیٰحدہ صوبے کی حیثیت دیاجائے اور اسی ہی میں فاٹا کے عوام کی بھلائی ہے ۔ خیبر پختونخواہ کے حوالے سے جے یوآئی کی قائدین نے کہا کہ صوبہ خود معاشی بدحالی کا شکارہیں تووہ قبائلی عوام کو کیا ترقی دیگی ۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کی ترقی یافتہ ضلع پشاور کے ہسپتالوں ، تعلیمی اداروں اور مواصلاتی نظام کی ترقی کی مثالیں فاٹا کے عوام کو محض جھوٹے نعروں پر ٹرخا یاجاتا ہے وہ صوبے کی دورافتادہ پسماندہ علاقوں کوہستان ، چترال، کرک،ہنگو، اور دیگر علاقوں کا ذکر کیوں نہیں کرتے جس کے غریب عوام آج کی ترقیافتہ دور میں بھی مختلف قسم کے مسائل کا شکار ہیں اور اپنے حقوق کیلئے ترس رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ صوبے میں کونسا انضمام ہوگا جس میں رواج ایکٹ کا قانون بھی ہوگا اور صوبائی قوانین بھی ہوں گے جس سے قبائلی عوام تذبذب کے شکار رہینگے ۔ اس طرح مقررین کا کہنا تھا کہ جے یوآئی کے امیر مولانا فضل الرحمن فاٹا کے حوالے سے اپنے موقف سے دستبردار نہیں ہوا جبکہ میڈیا ان کے حوالے سے صرف جھوٹے بیانات جاری کرتے ہیں جوکہ ان کی حام خیالی ہے وہ اپنے موقف پر آج بھی چٹا ن کی طرح قائم ہے۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا قدرتی ذخائر سے مالامال علاقہ ہے جہاں پر ترقی کیلئے تمام وسائل دستیاب ہیں اور اپنے اخراجات کو خود ہی برداشت کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا ایف بی آر کے دائرکار سے باہرہیں جس کا انضمام اگر صوبے میں ہوگیا تو فاٹا کے تمام ذرائع آمدن کی قدرتی وسائل پر بھی ناجائز محصولات لاگوں ہوں گے جس میں پھر فاٹا کے عوام سے کروڑوں کے ٹیکس لیاجائے گا جوکہ غریب قبائلی عوام برداشت نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا میں مسائل کے حل کیلئے جرگے کا موثر نظام موجود ہے جس کے فیصلے سستے انصاف پر مبنی ہوتی ہے اور اسی نظام ہی میں قبائلی عوام کی بھلائی ہے جبکہ عدالتی اور کچہریوں پر مبنی نظام سے شہری علاقوں کے عوام خود نالاں ہے اور ان کے مقدمات کی فیصلوں کے نتائج سالوں میں بھی حل نہیں ہوتے جس میں انصاف کے امکانات دور دورتک بھی نظر نہیں آتے۔
اگر فاٹا میں عدالتی نظام کا نفاذ ہو ا تو پھر اس کے اخراجا ت کے برداشت کیلئے بھی غریب قبائلی عوام کو دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑیگی۔