تحریر: ریاض بخش ویسے دیکھا جاے تو دنیا میں عجیب سے عجیب طرح انسان موجود ہے۔میں یہاں پیسے کی بات کرنے والا ہوں کئی تو کوئی ایک روپیہ کے لیے ترس رہا ہے تو کئی لوگوں کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ ان کو خود پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کے پاس کتنا پیسا ہے۔کوئی تو پیسہ کیلیے اپنی جان گواہ رہا ہے تو کہی پیسہ ہونے کے باجود اپنی جان گواہ رہا ہے۔بڑوں کی کہاوت ہے کہ پیسیہ نا ذیادہ اچھا ہوتا ہے نا کم۔کہی پیسہ کی اتنی ضرورت ہوتی ہے کہ انسان کو اپنی جان گوانا پڑا جاتی ہے ارو کہی پیسہ یکے لیے جان لینی پڑ جاتی ہے۔
میں ایک اسیے انسان سے میلا ہوں جو کچھ عرصے پہلے پیسوں کی وجہ سے بھکاری بن گیا تھا۔میں نے ابھی حال ہی میں ایک کمپنی join کی ہےas a sales assnt میں اپنی کمپنی کی طرف سے وزٹ پہ جاتا ہوں ۔وہاں میری ملاقات ایک آصف نامی بندے سے ہوی جو اس ٹایم جنرل سٹوکا مالک ہے ارو ساتھ میں books کا بڑے high level پہ کام کر رہا ہے۔باتوں باتوں میں ہی اس نے مجھے اپنے گزرے ہوے کل کے بارے میں بتایا۔عمر40سال آسلام آباد کا رہنے والا ارو ایک نمبر کا جوے بازدنیا کا کوئی نشہ نہیں جو اسنے نا کیا ہو جوے کا اتنا شوہدی تھا کہ ایک دن اپنا سب کچھ جوے میں ہار گیا۔
اس نے بتایا کہ میرے تین بیٹاں ہے میری بیوی کو فوت ہوے 8 سال ہو گئے ہے میر بڑی بیٹی کی عمر سولہ سال چھوٹی کی بارہ سال اس سے چھوٹی کی نو سال ۔میں نشے ارو جوئے میں اسطرح مست تھا کہ مجھے اپنا کاروبار اور اپنا گھر نظر نا آتا۔میری بیٹی مجھے کافی سمجھاتی مگر مجھے زارہ نا سمجھ آتی۔میرے حالت اچھے تھے مطلب کاروبار اچھا چل رہا تھا چودہ مرلعے کا گھر تھا۔لوگوں نے مجھے کافی روکا مگر میں نشے کرنے سے باز نا آیا۔ارو ایک دن ایسا آیا کہ میں نشے میں اپنا سب کچھ ہار بیٹھا۔
Business
اپنا گھر اپنا کاروبار کچھ بھی نا میرے پاس بچا۔کچھ seving تھی کچھ میں نے اپنے نشے پہ لوٹا دی ارو کچھ گھر کے خرچے میں لٹ گئی۔کہی رہنے کے لیے جگہ نہیں تھی۔اپنے رشتے دار ہی میرے دشمن بن گئے۔کیسے تسے کر کے میں نے آسلام آباد چھوڑا ارو لاہور آ گیا ۔یہاں ایک بندے کی مدا سے میں ایک ٹھرڈ کلاس کالونی میں کمرہ لیا ارو اپنی بیٹوں کے ساتھ رہنے لگ گیا۔حالت ایسے ہو گئے کے کئی راتیں میری بیٹاں بھوکے پیٹ سوتی۔۔(روتے ہوے)۔میری بیٹی سمجھ دار تھی اس نے محلے کے بچوں کو قرآن پڑھنا شروع کر دیا۔اس سے یہ ہوا کے ایک ٹائم کا گھر کا راشن آہ جاتا۔دو سال گزر گئے مگر حالت نا بدلے۔ارو اچھا نشہ نا ملنے کی وجہ سے میں بیمار ہو گیا۔مشکل ٹائم میں کوئی کسی کی مد نہیں کرتا۔دن بدن بیٹوں کی عمر میں اضافہ ہو رہا تھا۔ان کی ضرریات بڑھ رہی تھی ۔میں جہاں رہتا تھا وہاں زیادہ طر اُوڈ مطلب جن کو ہم عام زبان میں چنگڑ کہتے ہے۔ان کی زیادہ عورتیں بھیگ مانگتی ہے۔
ان میں سے ہی ایک بوڑھی عورت نے مجھے بھیگ مانگنے کا مشورہ دیا۔پہلے تو میں نے منا کر دیا ۔مگر جب اپنے نشے ارو بیٹوں کا خیال آیا تو روضی ہو گیا۔وہ عورت مجھے شادمان مین سگنل پے لے آئی ۔مجھے دیکھ کر دوسرے بھکاریوں نے شور مچا۔کیوں کہ وہاں پہلے سے ہی کافی تھے۔خیر مجھے سگنل سے کچھ فاصلے پر بھیگ مانگنے کی اجازت مل گئی۔ابھی مجھے کھڑے ہوے دس منٹ ہی گزرے ہونگے ۔ارو سگنل پہ کافی رش لگ گیا۔کاروں کی لمبی لاین لگ گئی ۔سب بھکاری بھاگ بھاگ کر گاڑیوں کے ششے کھڑکھاڑا رہے تھے۔کچھ لوگ ان بھکاریوں کو پیسے دیتے تو کچھ نہیں ۔میرا پہلا دن تھا ارو شرم بھی آہ رہی تھی۔میں جہاں کھڑا تھا وہا ں ایک منی پجارو کھڑی تھی ۔میں نے ہمت کر کے اس کا شیشہ کھڑکھاڑیا۔جو گاڑی چلا رہا تھا اس نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا۔ارو مجھ سے پوچا جی۔میں نے بولا تو کچھ نہیں بس اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔گاڑی میں دو لوگ تھے۔
دونوں مرد عورت بوڑھے تھے میرا خیال ہے کہ پچاس سال سے زیادہ عمر ہو گئی ۔جب میں نے ہاتھ ان کے آگے کیا تو۔وہ بندہ کہتا کہ شرم نہیں آتی اچھے خصاے جوان ہوارو بھیگ مانگ رہے ہو۔۔خدا کا خوف کرو جائو کوئی کام کر کے پیسے کمائو۔میں نے کہا جب گھر میں ٣ جوان بیٹاں ہو کھانے کو کچھ نا ہو تب خدا کا خوف نظر نہیں آتا۔تب انہوں نے مختصر کہا تو پھر نشہ کیوں نہیں چھوڑتے۔میری جھکی نظریں شاہد ان کو کچھ کہہ رہی تھی۔انہوں نے کچھ ارو بھی کہا تھا لیکن میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا ۔اتنے میں سگنل گرین ہو گیاگاڑیا ں چلنے لگ گئی۔اس بندے نے ایک خاکی لفافہ میری طرف بڑھایامیں نے آگے ہو کر پکڑ لیا ۔وہ لوگ چلے گئے۔بھکاری واپس اپنی اپنی جگہ پہ جانے لگ گئے ۔میرے دماغ نے کام کیا جو لفافہ مجھے ملا تھا وہ میں نے اپنے ناڑے کے ساتھ لٹکا لیا۔
Beggar
مجھے ڈر تھا کہ کہی دوسرے بھکاری نا دیکھ لے۔میں کچھ دیر وہاں کھڑا رہا۔مگر دل نہیں لگ رہا تھا۔میں وہاں سے گھر آہ گیا۔بیٹی نے پانی دیا ارو پوچھا کے ابو کوئی کام ملا گھر میں آج رات کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔میں نے چپ چاپ پانی پیا ارو وہ لفافہ نکالا۔میری تینوں بیٹاں میرے پاس آہ کر بیٹھ گئی ایک نے پوچھا کے بابا اس میں کیا ہے۔جب میں لفافہ کھولا تو ہم سب حیران ہو گئے۔اس لفافے میں 5.5 کی گڈیاں تھی میرے ہاتھ پائوں کاپنے لگ گئے ۔میری بڑی بیٹی مجھ سے سوال کیے جا رہی تھی مگر مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا ۔خیر کچھ دیر بعد میں نے خود کو سمھبلاارو وہ پیسے گنے وہ ٹوٹل ١٠ لاکھ تھا۔میری بڑی بیٹی روتے ہوے بابا بتاو یہ اتنے پیسے کہاں سے آئے۔ان کے اصرار پر میں نے سب بتا دیا کے میں تو بھیگ مانگنے گیا تھا مگر مجھے یہ مل گیا۔زیادہ لمبی بات نہیں کرو گا۔ان پیسوں سے میں کچھ گھر کا راشن لایا۔جب انسان کے پاس بے پناہ پیسے ہو تب گناہ بہت جلدی یاد آتا ہے۔مجھے نشے کی بہت طلب ہو رہی تھی ارو اپنے اندر ہی سوج رہاتھا کے آج میں جی بھر کر نشہ کرو گا وہ شراب پیوں گا جو سب سے مہنگی ہے۔
رات کے دس بچ گئے ۔میں گھر سے نکلنے ہی لگا تھا کے ۔میری بڑی بیٹی نے مجھے پیچے سے آواز دی۔تب سارے پیسے میرے ہی پاس تھے۔میری نے مجھے کہا کے بابا مجھے پتہ ہے آپ نشہ کرنے جا رہے ہو۔آپ جایئں میں آپ کو نہیں روکو گئی ۔کیوں کے آپ میرے بابا ہو۔بس اتنا کہنا چاہتی ہو کے یہ پیسے چند دنوں میں ختم ہو جائے گے۔اس کے بعد آپ کیا کریں گے ۔ہم جوان ہوگیی ہے۔ہمارا کیا بنے گا۔یہاں انکل نے ارو کچھ بھی بتایا وہ میں نہیں بتائو گا۔)میں باہر گیا تھوڑی دیر بعد واپس آہ گیا ۔میں نے نشہ نہیں کیا ۔ارو پوری رات اپنی بیٹی کی باتیں سوچتا رہا۔وہ دن سے لے کر آج کے دن تک میں نے نشہ نہیں کیا۔زیادہ لمبی چوڑی بات نہیں ہے۔ان پیسوں سے میں نے کام شروع کیا۔ارو آج آپ کے سامنے ہوں۔میں نے ایک اچھے علاقے میں گھر لیا ہوا ہے میرے پاس اب گاڑی بھی ہے۔دو بیٹوں کی شادی کر دی تیسری کی چند ماہ بعد ہے۔
دونوں دامادوں کو گھر داماد بنایا ہواہے۔5 بار عمرہ کر چکا ہوں اپنی بیٹوں کے ساتھ دو بار حج کر چکا ہوں ۔اللہ کا شکر ہے اب میں بہت خوش ہوں۔یہ آپ کو بتانے کا کوئی مقصد نہیں ہے بس آپ نے بھکاریوں کی بات کی تو میں نے یہ سب آپ کو بتایا ۔اسلیے کے سب بھکاری ایک جیسے نہیں ہوتے ۔11 سال ہو گے ہے اس بات کو مگر میں آج تک وہ گاڑی ڈوند رہا ہوں میں اپنی کمائی کا ادھ حصہ روز تقسیم کرتا ہوں یہ سوچ کر کے شاہد میری ملاقات اس نیک بندے سے ہوجاے جس نے میری زندگی بدلی۔میں دن رات اللہ سے یہی دعا کرتا ہوں کے مرنے سے پہلے ایک بار اس انسان سے ملوا دے۔
وہ انسان انسان کے روپ میں فرشتہ آیا تھا۔(انکل رو پڑے)امیں ہر شام شادمان سگنل پہ کم از کم 30 منٹ روکتا ہوں ارو دیکھتا ہوں اس جگہ کو جہاں میں کھڑا ہوا تھا۔میں جلد ہی ایک ایسا گھر بنا رہا ہوں جہاں بھکاریوں کو پناہ دی جاے ان کی ساری ضررویات پوری کی جاے ارو انشاللہ جلد ہی میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاوگا۔چل بیٹا اب بس ارو مت رولاو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭انکل اپنے دامدا کو آواز مارتے ہوے بیٹا جاو گھر کھانا تیار ہوگا لے آو آج ریاض بھی ہمارے ساتھ کھاے گا۔بس جی یہ بات ختم ہو گئی ۔میں نے انکل کے ساتھ کھانا کھایا ارو واپس آفس چلا گیا۔کہتے ہے انسان کو زندگی بار بار موقع دیتی ہے ارو کہتی ہے کہ اے انسان بدل جا۔اللہ انسا ن کو لمبی رسی دیتا ہے۔کیوں کے اللہ انسان سے بہت پیار کرتا ہے۔