مولانا کو خود شکار کرنے کی کوئی خاص عادت ہے اور نہ ہی کچھ زیادہ تجربہ۔وہ موقع اور محل کی مناسبت سے کسی ماہرنشانہ بازشکاری کوآگے کرتے ہیں اورپھرمرضی کے مطابق ان سے اپناحصہ وصول کرلیتے ہیں ۔دورنوازشریف کا ہو،پرویزمشرف کایاپھرآصف علی زرداری کا۔مولانااب تک اس نسخے کوآزمانے اوراستعمال کرنے میں کافی حدتک کامیاب رہے لیکن اب۔۔؟اب ایسانہیں ۔شکارکے مواقع توماضی کی نسبت آج زیادہ اورمیدان بھی وسیع ہے لیکن ماہرنشانہ بازاورتجربہ کارشکاری کاملنااب معدوم۔نرم گرم کھانے کی امید،جستجواورخواہش سب کو۔منہ بھی سال سے سب نے کھولے ہوئے ہیں لیکن شکارکے لئے آگے بڑھنے اورجانے کے لئے کوئی تیارنہیں ۔ ماضی میں شکارپرٹوٹ پڑنے والے ماہرنشانہ بازاورشکاری اب کی بارمولاناکوشکاراورنشانہ لگانے کے لئے آگے کرناچاہتے ہیں ۔ان کی خواہش ہے کہ ماضی میں جوکام ہم کرتے تھے اب وہ مولاناکریں ۔مولاناشائداس چیزسے واقف نہ ہوں لیکن شکارمیں اگرکوئی شکارجال میں نہ پھنسے توپھربسااوقات شکارکی جگہ شکاری اپنے بچھائے ہوئے جال میں پھنس کرخوددوسروں کاشکاربن جاتاہے اورایسااس ملک میں ایک نہیں کئی بارہوابھی ہے۔
سابق صدرپرویزمشرف کیلئے نوازشریف کے بچھائے گئے جال میں پھرکون پھنساتھا۔۔؟اس حقیقت سے پوری دنیااچھی طرح واقف ہے۔ماناکہ ماضی کی نسبت آج سیاسی شکارکے مواقع زیادہ اورمیدان بھی وسیع ہے لیکن اس وقت شکاری کاخودجال میں پھنسنے کاامکان بھی ماضی کے مقابلے میں زیادہ بلکہ بہت زیادہ ہے۔ متحدہ اپوزیشن میں شامل مسلم لیگ ن ،پیپلزپارٹی اوردیگرجماعتوں وسیاسی پارٹیوں کے شکاریوں کواچھی طرح اندازہ ہے کہ،،وادی انصاف،،میںنشانہ ذرہ بھی ادھر ادھر ہوا توپھرشکاری کونوازشریف اورآصف علی زرداری کے پاس جانے سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔سونے پرسہاگہ یہ کہ ملک میں انقلاب لانے والے خادم حسین رضوی کوانقلاب کے زمانے میں جس گھونسلے میں قیام کرایاگیاتھااب تووہ بھی نہ صرف خالی بلکہ مولاناجیسے کسی شریف سیاسی پرندے کی آمدکابھی شدت سے منتظرہے۔ مولاناایک کامیاب وزیرک سیاستدان ضرورہیں ،ہمیںان کی سیاسی بصیرت،فہم وفراست اورشرافت پرکوئی شک بھی نہیں لیکنشکارکابصیرت اورفہم وفراست سے کوئی تعلق نہیں۔
جوڑتوڑاورشکارمیں زمین وآسمان کافرق ہے۔جوڑتوڑمیں ٹوٹے ہوئے کوجوڑنے اورجوڑے ہوئے کوتوڑنے کے لئے وقت مل جاتاہے مگرشکارمیں ایک لمحے کی بھی مہلت نہیں ملتی۔ایک نشانہ ہوتاہے اگروہ خطاء ہواتوپھراس ایک غلطی پربرسوں کی ریاضت،خدمت اورشرافت بھی سمندرمیں تنکوں کی طرح بہہ جاتی ہے۔مولانافضل الرحمن نے اکتوبرکے مہینے میں ملین مارچ کے ذریعے ،،حکومت کاشکار،،کرنے کااعلان کردیاہے لیکن مولاناکو وادی انصاف میں کودنے سے پہلے اس بارے میںہزاربارسوچناہوگاکیونکہ شکاری اگرشکارمیں ناکام ہوتوپھران کے پاس واپس جانے کاکوئی راستہ نہیں ہوتانہ ہی وہ پھردوسروں کومنہ دکھانے کاقابل رہتاہے۔ مولانانے اپنی شرافت،فہم وفراست،صبر،بصیرت ،حق گوئی،بے باکی اورخدمت کے ذریعے معاشرے میں سیاسی طورپراپناایک مقام بنایا۔لوگ کچھ بھی کہیں لیکن دنیاجانتی ہے کہ ڈیزل ولسی کے طعنوں والزامات کے باوجودملک کے بڑے بڑے سیاسی سرخیل نہ صرف پاکستان کی سیاست میں مولاناکے کردارکابرملااعتراف کررہے ہیں بلکہ دل وجان سے ان کی قدربھی کرتے ہیں۔
ہم نہیں چاہتے کہ مولانانے ملک کی سیاست میں جونام کمایااورمقام بنایا۔مولاناکی برسوں کی یہ ریاضت ومحنت اب ایک لمحے میں دریابردہوجائے۔تحریک انصاف کی حکومت سے مسائل اورپریشانی مولاناسے زیادہ مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی اوردیگرسیاسی پارٹیوں اورجماعتوں کوہے۔پھر وہ خودآگے کیوں نہیں بڑھتے۔۔؟مولانااب تک دوسروں کوانگلیوں پرنچاتے اورکھیلاتے رہے لیکن لگتاہے سیاسی شطرمرغوں نے اب کی بارمولاناکے ساتھ یہ کام کرنے کی ٹھان لی ہے۔سوچنے کی بات تویہ ہے کہ ان سیاسی پارٹیوں کے لوگ جنہوں نے مولاناکوکبھی ملک کاصدراوروزیراعظم بننے نہیں دیااب وہ انہیں امام انقلاب کیسے بننے دیں گے۔۔؟ مولانااس وقت اپوزیشن اتحادکے امام ضرورہیں لیکن جے یوآئی کے علاوہ باقی سیاسی پارٹیوں کے افرادان کے پکے مقتدی ہرگزنہیں ۔نظریہ ضرورت کے تحت دیگراپوزیشن والے کوئی ایک نمازمولاناکے پیچھے ضرورپڑھتے ہوں گے لیکن پانچ وقت وہ مولاناکے ساتھ چلنے کے لئے کبھی تیارنہیں ۔مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی اوردیگرجماعتوں کے لیڈروسیاستدان مولاناکوتھپکی دے کرحکومت کے خلاف شکارکے لئے آگے ضرورکریں گے لیکن وادی انصاف میں پھران کے ساتھ جانے کے لئے کوئی تیارنہیں ہوگا۔ان سب کے اپنے اپنے نظریات،خیالات اورمفادات ہیں جب تک ان کے مولاناکے ساتھ مفادات جڑے ہوئے ہیں تب تک وہ مولاناکوجی جی کریں گے لیکن جب مفادپوراہوگاتوپھران کی نظرمیں بھی مولاناسے براکوئی نہیں ہوگا۔کسی دورمیں تووزیراعظم عمران خان جوآج ڈیزل ڈیزل کہہ کرنہیں تھکتے وہ بھی تومولاناکے کندھے کے ساتھ کندھاملاکران کی اقتدامیں چلتے تھے۔
آج وزیراعظم عمران خان کے نزدیک مولویوں میں اسی مولاناسے زیادہ کوئی برانہیں ۔سیاسی بصیرت اورفہم وفراست میں واقعی مولاناتک کوئی نہیں پہنچتالیکن مولانااپنی حقیقت اوران سیاسی لیڈروں کی اصلیت جاننے کی کوشش کریں ۔نواز،زرداری سمیت یہ اکثرچوری ،چکاری،لوٹ ماراورکرپشن میں بدسے بدنام ہوچکے ہیں ۔جولوگ چوری ،چکاری اورلوٹ مارکی سزابھگت رہے ہوں ۔مولانافضل الرحمن جیسی شخصیت کوکم ازکم یہ زیب نہیں دیتاکہ وہ ان کے ساتھ چلیں۔مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی اوردیگرلبرل وسیکولرپارٹیوں اورمولاناکی لڑائی میں زمین وآسمان کافرق ہے۔مولاناپرامن طورپرجمہوریت کے راستے اللہ کی زمین پراللہ کانظام چاہتے ہیں مگران سیاسیوں کی نظر،فکراورسوچ کچھ اورہے۔ان کی حکومت سے موجودہ لڑائی بھی نہ ملک کے لئے ہے اورنہ ہی قوم کے لئے ۔بلکہ اپنے آپ کو احتساب سے بچاکرایک بارپھراقتدارتک پہنچنے کے لئے ہے۔مولانااگرکسی چور،ڈاکو،لوٹے اورلٹیرے کوآپ کی آنکھوں کے سامنے مکافات عمل سے گزرناپڑتاہے تواس پرتوآپ کوخوش ہوناچاہئے۔حکومت کے برے اقدامات کی آپ کھل کرمخالفت کریں۔
عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پرنکلیں۔ملین مارچ کریں ۔جلسے جلوس اورمظاہرے کریں ۔دھرنے دیں ۔ان معاملات میںنہ صرف جے یوآئی کے کارکن بلکہ پوری قوم آپ کے ساتھ ہوگی لیکن مولاناخداراچوروں کاوکیل بن کرآپ امام انقلاب بننے کی کوشش کبھی نہ کریں ۔تحریک لبیک کے علامہ خادم حسین رضوی نے بھی امام انقلاب بننے کی کوشش کی تھی ۔آپ توجانتے ہیں ۔پھرکیاہوا۔۔؟اپنے اپنے وقت کے یہ چور،ڈاکو،لوٹے اورلٹیرے سیاستدان آج آپ کے پاک دامن کے ذریعے اپنے برسوں کے گناہ صاف اورگندمٹانے کی کوشش کررہے ہیں ۔آپ اپنے دامن کوان کے گنداورگناہوں سے آلودہ نہ کریں ۔آپ ان سے کنارہ کریں توآپ کے لئے زیادہ بہتررہے گا۔اس وقت تویہ سارے ہاتھ باندھ کرآپ کے پیچھے کھڑے ہیں لیکن ان موسمی پرندوں اورابن الوقتوں کاکوئی اعتبارنہیں ۔ کہیں ایسانہ ہوکہ اسلام آبادمیں حکومت کے خلاف ملین مارچ کرنے کے لئے وادی انصاف میں پہنچ کرآپ پیچھے دیکھیں اورپھرپیچھے آپ کے چندگنے چنے کارکنوں اوروفاداروں کے سواکوئی نہ ہو۔یہ بازوہمارے آزمائے ہوئے ہیں ۔ایک بات یادرکھیں کہ مفادات کے پیچھے بھاگنے والوں کوکسی کی عزت اور حرمت کاکبھی کوئی خیال نہیں ہوتا۔